(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

685

جہد ِ مسلسل
سچی شہادتیں
میجر جنرل (ر) راؤ فرمان علی خان: ’’البدر اور الشمس کے کردار کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ ان تنظیموں کے رضاکاروں نے علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور‘ روز نامہ جنگ راولپنڈی‘ ۳؍جولائی ۱۹۸۳ء)
بریگیڈیئر صدیق سالک: البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں اور وہ ہر وقت حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ انہیں جوکام سونپا جاتا وہ پوری ایمانداری اور جانی قربانی سے ادا کرتے۔ اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا ان کے زیر کفالت افراد نے شر پسندوں کے ہاتھ نقصان اٹھایا۔ ان کی بعض قربانیاں روح کو گرمادیتی ہیں۔ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘ ص ۱۱۲)
بریگیڈیئر (ر) محمد حیات خان: ’’مجھے سلام کرنے دیجیے البدر اور الشمس کے ان جیالوں کو‘ جو پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ لڑے اور اپنے لہو سے عزیمت اور استقامت کے نئے باب رقم کیے۔ ان میں سے بہت سے شہید ہوگئے۔ بہت سے باربار زخمی ہوئے۔ ان نوجوانوں نے متحدہ پاکستان کے لیے جو قربانیاں دیں اور کارنامے انجام دیے وہ یقینا ہماری ملکی تاریخ کا روشن باب ہیں۔(انٹرویو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور اگست ۱۹۷۸ء)
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی: البدر اور الشمس حد درجہ وفا دار‘ محب وطن‘ پرجوش اور سرگرم پاکستانی تھے‘ جنہوں نے دل و جان سے پاکستانی افواج کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے ہمیںکبھی دغا نہیں دی۔ کبھی فریب نہیں دیا۔ ہمارا ساتھ چھوڑ کر وہ مکتی باہنی سے نہیں ملے۔ ہمارے دشمن سے کبھی سازباز نہیں کی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ البدر کے نوجوان آخری وقت تک پاکستان کی بقا کے لیے لڑتے رہے۔ (انٹرویو قومی ڈائجسٹ جولائی ۱۹۷۸ء‘ ص ۵۶‘ ۵۷)
میجر ریاض حسین ملک: البدر کے عظیم نوجوانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر تاریخ اسلامی کا ایک باب کھولا ہے۔ یہ تنظیم ایک ایسی مالا تھی جس کا ایک ایک موتی اپنی چمک میں بے مثال تھا سوئے اتفاق سے ان کی عظیم کارکردگی سے اکثر و بیش تر لوگ نا آشنا ہیں‘ حالانکہ ان کی جدوجہد ہر زندہ قوم کے لیے باعث فخر ہے۔ (انٹرویو‘ ۱۰؍ جون ۱۹۷۵ء)
جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کی عوامی لیگ سے کوئی دشمنی نہ تھی‘ صرف نظریاتی اختلاف تھا جو آج بھی ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اور بعد میں ہندوستانی فوج اورمکتی باہنی کے خلاف مخصوص حالات میں جماعت اسلامی نے پاکستان کو متحد رکھنے اور محب وطن پاکستانیوں کی جان ومال کی حفاظت اور سرحدوں کی حفاظت کی خاطر‘ پاکستانی فوج سے تعاون کیا اور ہر طرح کا نقصان اٹھایا اور یہ سبق بھی سیکھا کہ اپنے ملک میں فوجی آپریشن کی ہر حال میں مخالفت کرنی چاہیے‘ کیونکہ یہ آپریشن مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ نئے اور گمبھیر مسائل کو جنم دیتا ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی اسباب
پاکستان مذہب اسلام کی قوت اور جذبے نے بنایا تھا لیکن حکمراں طبقے کے غیراسلامی اقدامات اور سیکولر نظریے کے فروغ نے پاکستان کو دولخت کردیا۔
۱۲؍فروری ۱۹۷۲ء کو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی صدارت میں مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا اجلاس شروع ہوا۔ ۱۷ فروری ۱۹۷۲ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی اہم ترین قرار داد کا موضوع سقوط مشرقی پاکستان تھا۔ قرارداد کا متن موضوع کے ہر پہلو پر محیط تھا:
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب اور اس سے پوشیدہ مسائل کا جائزہ لینے کے بعد اس یقین کا اظہار کرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم جس شکست ذلت اور تباہی سے دوچار ہوئے ہیں اور جن خطرات میں گھر گئے ہیں وہ دراصل ایک عذاب ہے جو خدا اور اس کے دین سے انحراف اور ان کے ساتھ مسلسل بے وفائی اور منافقت برتنے کی وجہ سے ہم پر نازل ہوا ہے۔
۱۔ ہمیں جو ذلت اٹھانی پڑی ہے اس کی وجوہ میں بلا شبہ قیادت کی مجرمانہ کوتاہیوں اور غلطیوں اور سرخ و سفید اور برہمنی سامراج کی بین الاقوامی سازشوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے لیکن اس ذلت اور تباہی کا اصل سبب وہ تباہ کن پالیسیاں اور پروگرام ہیں جو خدا اور آخرت کی باز پرس سے غافل ہوکر یہاں گزشتہ ۲۴ سال سے بنائے اور چلائے جاتے رہے اور بار بار کے انتباہ کے باوجود جن کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہ کی گئی۔
(جاری ہے)