(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

270

جماعت اسلامی کے ووٹ
جماعت اسلامی کو بظاہر انتخابات میں شکست ہوئی اور اسے پورے ملک سے قومی اسمبلی میں صرف چار نشستیں حاصل ہوئیں۔ مشرقی پاکستان‘ صوبہ سرحد‘ پنجاب اور سندھ سے بھی ایک ایک نمائندہ کامیاب ہوا لیکن جیتنے والی پارٹیوں کے بعد سب سے زیادہ ووٹ جماعت اسلامی نے حاصل کیے۔ جماعت اسلامی نے ملک کے دونوں حصوں میں کل ۱۹ لاکھ اناسی ہزار چار سو اکسٹھ (۱۹۸۹۴۶۱) ووٹ حاصل کیے‘ جوکل پڑنے والے ووٹوں کا۶ فے صد تھا۔ یہ ووٹ متوسط تعلیم یافتہ شہری طبقے کے ووٹ تھے‘ اس کے علاوہ جن جماعتوں کے امید واروں کی حمایت کی گئی تھی‘ ان کے ووٹ الگ ہیں۔ جماعت نے طویل انتخابی مہم کے دوران جھوٹے پروپیگنڈے کے طوفان اور جذباتی نعروں کے مقابلے میں عوام کی مثبت تربیت کی جو سخت کش مکش اور مجاہدہ کیا تھا‘ وہ ضائع نہیں گیا‘ اس طرح پاکستان کو سوشلسٹ ملک بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔
غیر شفاف انتخابی عمل
ملک کے دونوں حصوں میں انتظامیہ نے کھل کر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے انتخابی عمل کے ذریعے بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ بھگتائے۔ امیدواروں کو اغوا کرکے انتخابات کے بعد رہا کیا گیا‘ ووٹروں پر حملے کیے گئے۔ پولنگ اسٹیشنوں میں مخالفین اور خصوصاً جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹوں کو داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ اصل ووٹروں کو انتہائی خوفزدہ کرکے انہیں گھروں پر رہنے پر مجبور کردیا گیا‘ تاکہ جعلی ووٹوں کو بھگتانے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ کئی جگہ پولنگ ایجنٹوں کو مارا پیٹا گیا۔ بنگلا قوم پرستی اور روٹی کپڑا اور مکان کے جھوٹے دعوئوں اور لالچ نے بھی الیکشن کے نتائج پر گہرا اثر ڈالا۔ جس خطرے کی نشاندہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے انتخابی مہم کے آغاز ہی میں کردی تھی‘ وہ خطرہ متحدہ پاکستان کے وجود کو نگل گیا۔
نومنتخب قومی اسمبلی کے اجلاس کا التوا اور بغاوت
لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ اگر اسمبلی ۱۲۰ دن کے اندر دستور نہ بناسکی تو اسے توڑ کر نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ انتخابات کے دو ماہ بعد تک تو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیا گیا۔ کیونکہ جنرل یحییٰ خاں چاہتے تھے کہ مجیب اور بھٹو میں اسمبلی اجلاس سے پہلے ہی کچھ مفاہمت ہوجائے‘ جو نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی۔ اسی اثناء میں ۳ ؍مارچ ۱۹۷۱ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا اور ۲۸؍ فروری کو دھمکی دی کہ اسمبلی میں شرکت کرنے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کا یہ مطالبہ فوراً مان لیا‘ جبکہ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں بغاوت کا لاوا پھوٹ پڑا۔ مرکزی حکومت بے اثر ہوگئی۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی حکومت عملاً شیخ مجیب الرحمن کے تابع ہوگئی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نئے گورنر سے حلف لینے سے انکار کردیا اور یہ صورت حال تین ہفتے تک جاری رہی۔ اس کے بعد صدر یحییٰ خان ڈھاکا گئے اور عوامی لیگ اور دیگر پارٹیوں سے بات چیت کی‘ ناکامی کے بعد یحییٰ خان نے فوجی کارروائی کے لیے جنرل ٹکا خان کو اختیارات دے دیے اور خود واپس مغربی پاکستان آگئے۔عوامی لیگ کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور مجیب الرحمن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے بیان دیا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔
(جاری ہے)