انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم )

283

جماعت اسلامی نے ا نتخابی مہم میں نیا کلچر متعارف کرایا۔جماعت اسلامی کے نامزد امیدواران نہ سرمایہ دار تھے اور نہ جاگیر دار۔جماعت نے پہلی بار اس اصول کو بھی متعارف کرایاکہ انتخابی مصارف امیدوار خرچ نہیں کرے گا بلکہ خود جماعت کرے گی۔ امیدواروں کی اکثریت انتخابی مصارف برداشت کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے کہا کہ’’ امیدوار کی نیت کی خرابی کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ لاکھوں روپے انتخاب پر خرچ کرے‘‘۔اسی طرح جماعت نے کسی ایسے فرد کو بھی امید وار نہیں بنایا جو خود درخواست لے کر آیا ہو۔
سال بھر جاری رہنے والی انتخابی مہم بنیادی طورپر ایک نظریاتی کش مکش تھی۔دوعالمی استعماری نظام یعنی سرمایہ داری اور کمیونزم کی کش مکش کا میدان پاکستان بنا ہواتھا‘ لیکن جماعت اسلامی نے ان دونوںنظاموں کو رد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا ہے‘اس لیے اس ملک کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت اسلام ہے۔ سرمایہ داری تو ہے ہی بدترین نظام۔ اشتراکیت اور لسانی قوم پرستی پاکستان کو ایک نہیں رکھ سکے گی۔لیکن یہاں پرسرمایہ دار اوراشتراکی اور علاقائی ولسانی قوم پرست‘ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے باہم متفق تھے۔
ایک سال کی طویل اور جا ںگسل انتخابی مہم کے دوران جماعت اسلامی نے وسیع پیمانے پر عوام سے رابطہ کیا۔ قوم کی تعلیم اور تربیت کی اس مہم نے پاکستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کئے۔جمعیت علمائے اسلام ہزاروی گروپ کا جھکاؤ سو شلزم کی طرف تھا۔
ہر مکتبہ فکر کے جید علماء کا سوشلزم کے خلاف فتویٰ
فروری ۱۹۷۰ء میں پاکستان کے ہرمکتبہ فکر کے ۱۱۵ جید علمائے کرام نے فتویٰ دیا کہ سوشلزم کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر بقدر طاقت فرض ہے۔ سوشلسٹوں کی مالی اعانت اور انھیں ووٹ دینا کفر کی امداد کرنا ہے ۔ علماء کے اس فتوے کے بعد ہزاروی گروپ کا اثر معدوم ہو گیا لیکن بھٹو صاحب اسلام ہمارا دین ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے کے چیتھرے اڑاکر عوام کو مسلسل دھو کے دیتے رہے۔
لیگل فریم ورک آرڈر مجریہ ۱۹۷۰ء
صدر یحییٰ نے ایک تقریر میں پاکستان کے آئندہ آئین کے لیے پانچ بنیادی اصولوں کا اعلان کیا۔
۱۔اسلامی نظریہ ( مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا)۔
۲۔ملکی سالمیت ( اسلامی نظریے کا تحفظ کیا جائے گا اور سربراہ مملکت مسلمان ہوگا)۔
۳۔جمہوریت ( انتخابات بالغ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے)۔
۴۔وفاق ( صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی)۔
۵۔تمام علاقوں کے لیے یکساں مواقع شرکت ( ایک مدت کے اندر صوبوں اور علاقوں کے درمیان ناہمواریاں دور کردی جائیں گی)
انھوں نے اس تقریر میں ون یونٹ توڑنے کا اعلان کیا اور یکم؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو اس کے خاتمے کا حکم جاری کردیا۔
یوم ِشوکتِ اسلام ۔۳۱؍ مئی ۱۹۷۰ء
ملک میں اسلام اور سوشلزم کے درمیان نظریاتی کش مکش جاری تھی۔ اشتراکی قوتوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے۱۹؍ اپریل کو پورے ملک میں ہڑتال کا اعلان کیا(۱۱)۔ مذکورہ ہڑتال کے پروگرام سے قبل ہی جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس عاملہ نے امیر جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدارت میں قوم سے اپیل کی کہ’’۱۹؍اپریل کی ہڑتال کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے‘ کیونکہ اس کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ سوشلسٹ جب چاہیں پورے ملک کے نظام کو معطل کرسکتے ہیں‘‘۔’
(جاری ہے)