قومی اداروں کی کراچی سے منتقلی

283

وزیر اعظم عمران نیازی نے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے صدر دفتر کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی اجازت دے دی ہے ۔ ایک لابی ہے جو تمام ہی اداروں کے صدر دفتر کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے لیے عرصے سے کوشاں ہے ۔ سمندر کراچی میں ہے مگر پاکستانی بحریہ کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے ۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کی صدر دفاتر کی منتقلی کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں ۔ اسی طرح اسٹیٹ لائف کارپوریشن اور نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر دفاتر کے لیے بھی یہی خبریں آتی رہی ہیں ۔ اس مخصوص لابی کے شکنجے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے تو آہی چکے ہیں ۔ ابھی تک رسمی طور پر ان دونوں اداروں کے صدر دفاتر اسلام آباد منتقل نہیں کیے گئے ہیں مگر غیر رسمی منتقلی کا کام جاری ہے ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کراچی میں اپنے دفتر میں بیٹھتے ہی نہیں ہیں اور ضروری امور کی انجام دہی کے لیے ڈائریکٹروں اور دیگر عملے کو اسلام آباد طلب کرتے رہتے ہیں ۔ پی آئی اے کے سربراہ نے تو کئی شعبہ جات اسلام آباد منتقل بھی کردیے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ ان اداروں کے صدر دفاتر کو کراچی سے اسلام آبا دمنتقل کرنے پر زور ہے ۔ کیا ان اداروں کے صدر دفاتر اسلام آباد منتقل کرنے سے ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی ۔ اس وقت قومی فضائی کمپنی یومیہ کروڑوں روپے کا خسارہ کر رہی ہے تو کیا اس کے صدر دفتر کی منتقلی سے یہ خسارہ منافع میں بدل جائے گا ۔ محض صدر دفتر کی متنقلی پر ہی اربوں روپے کے اخراجات آئیں گے ۔ اگر یہ خطیر رقم پی آئی اے نئے جہازوں کے حصول پر خرچ کرے تو اس سے نہ صرف اس کے جہازوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا بلکہ اس کے خسارے میں کمی بھی آئے گی ۔ صدر دفتر کی منتقلی کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ملازمین جن کی تنخواہیں کم ہیں ، انہیں مجبوراً اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہونا پڑے گا ۔ اس کے علاوہ ایسے ملازم جن کی بیویاں کراچی میں کسی دوسری جگہ ملازم ہیں یا ان کے بچے کسی میڈیکل یا انجینئرنگ کالج وغیرہ میں زیر تعلیم ہیں ، انہیں یا تو منقسم خاندان کے طور پر رہنا پڑے گا یا پھرانہیں بھی ملازمت کو خیر باد کہنا پڑے گا ۔ جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور ٹھیکیدار کے ذریعے کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین تو پہلی فرصت میں ہی فارغ ہوجائیں گے ۔ صرف ایک صدر دفتر کی منتقلی کا مطلب ہزاروں افراد کی بے روزگاری اور ان سے منسلک ہزاروں خاندانوں کی فاقہ کشی ہے ۔ وزیر اعظم عمران نیازی کی اب تک ایک بھی پالیسی ایسی نہیں ہے جس کا خیرمقدم کیا جاسکے ۔ آخر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ان کے دور میں صرف اور صرف ایڈہاک ازم ہے جبکہ ان کے پاس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام نہیںہے ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے ادارے میں ابھی تک مستقل سربراہ کا تقرر نہیںکیا جاسکا ہے جس کی وجہ سے یہ منافع بخش ادارہ اب خسارے کی طرف گامزن ہے ۔ پی آئی اے جیسے ادارے میں ضرورت ہے شہری ہوا بازی سے تعلق رکھنے والے کسی تجربہ کار شخص کو سربراہ مقرر کرنے کی مگر یہاں پر پاک فضائیہ کے وائس چیف آف اسٹاف کو سربراہ مقرر کردیا گیا ہے ۔ اس کا دو طرفہ نقصان ہورہا ہے ۔ پاک فضائیہ نے اپنے ایک ائر مارشل کی تربیت اور تیاری پر جو محنت کی تھی وہ ضائع گئی کہ اپنی فیلڈ میں ماہر شخص اب پاک فضائیہ کا اثاثہ نہیں رہا ۔ اب اگر بھارت کے ساتھ جنگ کی صورتحال ہوتی ہے تو پاک فضائیہ اپنے بہترین افسر سے محروم ہوگی ۔ اسی طرح پاک فضائیہ کے اس افسر کو چونکہ شہری ہوابازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے ، اس لیے ملک کا اہم اور قیمتی اثاثہ پی آئی اے بھی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوگا ۔ وزیر اعظم عمران نیازی نے پاک فضائیہ اور پاک فوج کے حاضر سروس درجنوں افسران کا پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی میں تقررکیا ہے جس کے باعث ملک کی افواج اپنے قیمتی تجربہ کار افسران سے محروم ہوگئی ہیں تو ان اداروںمیں بھی تباہی آگئی ہے ۔ ان اداروں میں کام کرنے والے تجربہ کار افسران میں بھی بددلی پھیل گئی ہے کہ ان کی ترقی کا کوئی راستہ ہی نہیں بچا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ یوٹرن کے لیے مشہور عمران نیازی اپنے ان فیصلوں پر یو ٹرن لے لیں ۔ یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے ۔