ریاست مدینہ کیسی تھی

866

ہجرت کی خبر ملی تو یثرب کے لوگ بے تاب تھے‘ بچے بوڑھے‘جوان اور خواتین‘ سب گھروں‘ درختوں اور چھتوں پر چڑھ کر راہ دیکھ رہے تھے انہیں یقین تھا کہ اب یثرب مدینہ میں تبدیل ہونے جارہا ہے جہاں سماجی انصاف بھی ملے گا‘ دین کی رہنمائی اور دنیا اور آخرت میں اجر اور جواب دہی کا تصور دینے والی عظیم قیادت کے سائے تلے تعلیم بھی میسر آئے گی‘ جب قصویٰ نے مدینہ میں قدم رکھے تو دلی تسلی‘ سماجی تحفظ اور خوشیوں کا سورج طلوع ہوگیا‘ گویا یثرب والوں نے معراج پالی‘ پہلا حکم یہ دیا کہ مسجد تعمیر کی جائے گی‘ پورا شہر امڈ آیا کہ وہ اس مسجد کے لیے اپنی اراضی دینے کو تیار ہیں‘ حکمت نے فیصلہ کیا کہ جہاں قصویٰ بیٹھے گی وہیں مسجد تعمیر کی جائے گی اور اس کے لیے باقاعدہ معاوضہ دیا جائے گا اس کے بغیر نہیں‘ ریاست مدینہ کی پہلی مسجد‘ معاوضہ دیے بغیر تعمیر نہیں ہوئی یہ تھی ریاست مدینہ کے تصور کی ابتداء‘ ریاست مدینہ ہی کا حکم ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضہ دیا جائے۔
برصغیر کے مسلمان جب الگ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے تو ان کے ذہنوں میں یہ اطمینان تھا کہ اب ہندو ساہوکار‘ وڈیرہ‘ سرمایہ دار اس کے معاشی حقوق غصب نہیں کر سکے گا‘ سب لوگ کلمہ کے نیچے ہوں گے‘ جس میں عدل ہی عدل ہے کسی گورے کو کالے پر سبقت نہیں‘ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے لیکن آج پاکستان میں کیا ہورہا ہے‘ کہیں صلاح الدین ذبح ہورہا ہے اور کہیں لوگ دن دیہاڑے لٹ رہے ہیں‘ کہیں راتوں کو جاگ رہے ہیں کہ چور ان کی جمع پونجی نہ لوٹ کر لے جائیں‘ پولیس کا نظام‘ سماج کا نظام انصاف دینے میں ناکام ہورہا ہے کسی نے گوجرانوالہ کے نواحی علاقے آدھورائے سے آنے والی یہ خبر پڑھی‘ اور کتنے ہیں جن کا کلیجہ یہ خبر پڑھ کر باہر نکل آیا ہو دو سطری خبر ہے اور اس پر توجہ ایک سطر کے برابر بھی نہیں ملی آرا مشین پر کام کرنے والے ایک پندرہ سالہ ملازم کا ہاتھ مالک نے محض چھ ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت پر کاٹ دیا جس نے یہ کام کیا اس کے سینے میں دل نہیں تھا؟ اس کی اپنی اولاد نہیں تھی؟ یہ اور ایسے بے شمار واقعات ہیں جنہوں نے دل توڑ دیا ہے معاشرے میں درندہ صفت لوگوں کو سنگ دلی و سفاکی کی کھلی چھوٹ کس نے دے رکھی ہے یہ کوئی پہلا واقعہ بھی نہیں ایسی وارداتیں معمول کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ گھریلو ملازمین کے جسم استریوں سے جلائے جانے کے واقعات ہم سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں انسانیت سوز سلوک، وحشت و سنگ دلی کی بے شمار داستانیں میڈیا میں شائع ہوچکی ہیں۔ گوجرانوالہ کا روح فرسا واقعہ بھی ایک اضافہ ہی ہے مگر سزا کسے ملی اور اب کسے ملے گی؟ آج کل میڈیا تو خود خبر بنا ہوا ہے‘ بس یہاں تنخواہ مانگنے والوں کے ہاتھ آروں میں نہیں کاٹے جارہے فرق صرف اتنا ہے‘ جو بھی تنخواہ کے لیے آواز اٹھاتا ہے‘ مالکان کے خیر خواہ میڈیا لیڈرز انہیں دھمکاتے ہیں‘ اور ڈراتے ہیں کہ نوکری چلی جائے گی‘ پسینہ خشک ہونے سے اجرت اور معاوضہ دینے کا رواج اب کہاں کھو گیا ہے؟ یہ آج ہمیں
کوئی ریاست مدینہ کے تصور کی روشنی میں سمجھا دے‘ ریاست کی کیا ذمے داری ہوتی ہے کیا وہ ایسے ماحول میں خاموش تماشائی بنی رہے؟ ان دنوں حکومت کے ہر عہدیدار کے پاس ایک ٹویٹ ہے جس کے ذریعے سب اچھا ہے کی خبریں ہیں انہیں خبر ہی نہیں کہ بگل بجنے کے قریب ہے جب بچے ہی شور مچا دیں گے کہ بادشاہ ننگا ای اوئے پھر یہ ٹویٹ کسی کے کام نہیں آئیں گے۔ بچوں کا شور ہی یو ٹویٹ ان کے منہ پر دے مارے گا۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں اعداد و شمار کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی حکومت کے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں‘ گوجرانوالہ کا یہ واقعہ مشکل فیصلوں کا کیا پہلا نتیجہ ہے؟ انہیں کون سمجھائے کہ جناب مہنگائی اور پھر کام کی اجرت کا بھی نہ ملنا‘ کیسے دن دکھاتا ہے اور کیسے دکھ دیتا ہے‘ تنخواہ ملے نہ ملے‘ بجلی‘ پانی کا بل آنا ہی آنا ہے‘ ادائیگی کے بغیر جان بخشی نہیں ہوتی لیکن چاہے کوئی آرے والا اور یا میڈیا ہائوسز کا مالک‘ جہاں ایک مہینے کا وقفہ اب دسویں ماہ تک بڑھ چکا ہے سب نے ایک وتیرہ بنا لیا ہے کہ جو حق مانگے اسے عبرت کا نشان بنادو‘ آج کے معاشی نظام میں سب سے مظلوم طبقہ تنخواہ دار طبقہ اور آخری صارف ہے جو اپنا بوجھ کسی دوسرے پر نہیں لاد سکتا‘ ٹیکس براہ راست ہو یا بالواسطہ‘ یہ ہر لحاظ سے آخری صارف کے لیے موت کی ہچکی ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کے گلے کٹ رہے ہیں اور ہاتھ کٹ رہے ہیں‘ ان کی
آواز دب رہی ہے اور دل بیٹھ رہے ہیں‘ ان کے گال پچک رہے ہیں اور جسم سوکھ رہے ہیں‘ ہے کوئی معالج جو آگے بڑھے اور علاج کرے لیکن کہا جارہا ہے کہ مت حق مانگو‘ بس اپنا فرض یاد رکھو‘ اور ہر حق سے دستبردار ہوتے چلے جائو اقبال نے بھی اک راستہ ہمیں دکھایا تھا اسے بھی ذہن نشین کرلیاجائے ۔
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے