کراچی: کچراچی، مسائلستان

233

تبسم فیاض

پاکستان آزاد ہونے کے بعد کے در پیش مسائل سے کون آگاہ نہیں یہ سب ہم نے پڑھا بھی اور اپنے بڑوں سے سُنا بھی لیکن اس قوم نے اُن مسائل کا کس جرات مندانہ انداز میں سامنا کیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے وسائل کی کمی اور مسائل کا انبار ملک کی آزادی کے بعد ایک عام بات ہے اُن مسائل سے نمٹنے کے لیے صرف اور صرف جذبہ ِ حب الوطنی ہی تھا جس نے آج اس ملک کی اہمیت کو خطہِ زمین پر اُجاگر کیا جب میں پاکستان کی تاریخ پڑھتی ہوں تو بہت سے سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اپنے مفاد پر اس ملک کے مفاد کو ترجیح دی؟ ہمارے پاس کہاں کمی ہوئی کہ اس ملک میں وسائل ہونے کے باوجود مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے؟ یا پھر وہ کیا وجہ تھی جس نے جذبہِ حب الوطنی کو تھپک تھپک کر سُلا دیا؟ یا کیا ہم پھر ذہنی طور پر غلام ہوتے جا رہے ہیں؟ ہمارے حکمرانوں کے پاس جو اختیارات ہیں اس کی ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہے؟۔ اس ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت پیش آرہی ہے جنہوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں اپنے جان و مال کی پروا بھی نہیں کی تھی۔ آج پاکستان 1947 جیسے مالی مسائل کا شکار ہے بلکہ ایسے گمبھیر مسائل کا شکار ہے جن سے اس ملک کی سا لمیت کو خطرہ ہے۔ آج حکمرانوں نے اپنے مفادات اور ترجیحات کو تبدیل کر لیا ہے۔ پیسے کی دوڑ اور کرسی کے نشے میں چُور ان سیاستدانوں کو صرف اور صرف اپنا عہدہ عزیز ہے۔ اس عہدے کی ذمے داریاں اور فرائض کا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔ ہر عہدیدار کی کرپشن کی داستان اس کے منصب اور اختیارات چھوڑنے کے بعد سننے کو ملتی ہے اب پاکستانی عوام تنگ آچکے ہیں کہ یہ فیصلہ کس طرح کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ اور کس پر بھروسا کریں؟ پاکستان کا ہر صوبہ اور شہر مختلف مسائل سے گھرا ہوا ہے لیکن جب میں اس ملک کے ایک بڑے شہر کراچی کی بات کروں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
شہر کراچی، پاکستان کا پہلا دارالحکومت، روشنیوں کا شہر آج جس خستہ حالی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ تو پاکستان بننے کے وقت بھی اس سے کئی گنا زیادہ اچھا تھا۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والا یہ شہر آج ہر طرف سے گندگی، کچرے کے ڈھیر، سیوریج کے پانی، اندھیروں اور سیاسی سازشوں کا شکار ہے۔ اس کے رہنے والے زندہ دل لوگ آج اس شہر کے تفریحی مقامات پر جانے سے گریزاں ہیں۔ ہر طرف تعفن کی فضاء ہے۔ بجلی کا بحران، پانی کی کمی، گیس کی لوڈشیڈنگ، نکاسی ِ آب اور صفائی کا فقدان، تعصب، سیاسی انتشار، کرپشن زدہ عہدیدار، سرکاری اداروں میں نا اہل ملازمین، رشوت، سفارش، قوانین کی خلاف ورزیاں، بے روزگاری، کرپٹ تعلیمی نظام، بڑھتے ہوئے جرائم، اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اس شہر کے خاص مسائل ہیں۔ لیکن ان سب پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ اربوں روپے کا بجٹ کہاں جاتا ہے کچھ پتا نہیں۔ غریب یہاں بینک کا ایک لاکھ لون نہیں کھا سکتا لیکن ہمارے سیاسی رہنماء اربوں کا بجٹ ایسے آگے پیچھے کرتے ہیں کہ اُن سے نیب جیسا ادارہ بھی نہیں نکلوا سکتا۔ اتنے مسائل کے باوجود کراچی کے عوام کے صبر کی داد دیتی ہوں کہ وہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر میں کس طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کیوں؟
آج اس شہر کراچی کو کچراچی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کراچی کا کوئی بھی علاقہ ہو ایسی ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ نکاسی ِ آب کی بے قاعدگیوں نے اس شہر کی سڑکوں سے ان کا وجود بھی چھین لیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کراچی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلاظت کا ڈھیر بنایا گیا ہو اور اس کے رہنے والے شہریوں نے اپنا آدھا ایمان تو بیچ ہی دیا ہے ہم مسجد کے آگے کھڑے دو دو فٹ گندے پانی کو پھلانگ کر تو نماز پڑھنے جا رہے ہیں لیکن ان لوگوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھا پا رہے جن لوگوں نے ووٹ لیتے وقت اس علاقے کو بہتر اور مسائل ختم کرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ آپ اور ہم سب اس میں شامل ہیں کیونکہ ہم ان اداروں کو بھی ختم نہیں کر پا رہے جن کی یہ ذمے داری ہے۔ ہم اپنے حقوق کا استعمال نہیں کر پا رہے۔ سب جو ہے جیسا ہے کہ بنیاد پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن ایسا کیوں ہے ہماری ایسی کیا مجبوری ہے جو ہم ان مسائل میں زندگی گزار رہے ہیں؟ ہماری کوئی مجبوری نہیں ہم میں صرف اور صرف احساس کا خاتمہ ہو گیا ہے اور جس قوم میں احساس مر جائے وہاں ایسے معاملات پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ہم میں صفائی کا احساس نہیں رہا بحیثیت شہری ذمے داریوں کا احساس نہیں رہا سچ اور حق بات کہنے کی تمیز نہیں رہی اچھائی اور برائی کا احساس نہیں رہا۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ہر شخص کو اپنا پیٹ بھرنے کی پڑی ہے۔ ہر ادارہ فنڈ کی کمی کو رو رہا ہے۔ سارے رہنماء سیاسی اُٹھک بیٹھک میں لگے ہوئے ہیں اس ملک کو کون دیکھے گا؟ دوسری طرف دشمن ملک کی طرف سے ملک کی سا لمیت کو خطرات اور ہمارے وجود کا ایک حصہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ ایسے میں اس ملک کی بقا کے لیے کیا کیا جائے جس سے یہ سارے معاملات حل ہو جائیں۔
ابتداء تو اپنے آپ سے کرنی ہوگی۔ اپنی سوچ اور اپنے آپ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ تمام سیاسی تنظیموں سے بالاتر ہو کر بحیثیت پاکستانی اپنے ملک کی بقاء کے لیے سنجیدگی سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا جو ہمارے ماحول ہماری صحت، ہمارے خاندان ہماری آنے والی نسلوں اور ہمارے ملک کی خوبصورتی اس کے دفاع کے لیے خطرے کا باعث ہوں۔ اس کے لیے ہمیں ان لوگوں کے خلاف بھی جانا پڑے (جو اس ملک کا کھا تو رہے ہیں لیکن گا دوسروں کا رہے ہیں) تو ضرور جائیں گے۔ گزشتہ چار سال میں اس ملک کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر، بہتے ہوئے گندے نالے، جگہ جگہ اپنی مرضی کی کچرا کنڈیاں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، تعفن زدہ فضاء، کھنڈرات کا منظر پیش کرتے پارک، خلافِ قوانین ٹریفک کی بہتات، چار دیواری، دروازے، کھڑکیوں سے محروم سرکاری تعلیمی ادارے جہاں طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر تو دور چٹائیاں بھی دستیاب نہیں، طبی سہولتوں سے محروم اسپتال، مفت میں تنخواہیں لینے والے سرکاری ادارے جان و مال کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والے نا اہل اہلکار۔ ان سب کا خلاصہ صرف اور صرف کراچی شہر ہے۔ با رونق، خوبصورت اور روشنیوں کا شہر کراچی آج نجانے کن لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ ان کو تباہ کرنے کا سہرا حکمرانوں ہی کو نہیں اس کے عوام کو بھی جاتا ہے۔ اس شہر کے عوام کا قصور سب سے بڑا یہی ہے کہ جس نے جیسا چاہا اس شہر کے ساتھ کیا لیکن عوام نے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھائی اور ایسی ہی زبوں حال زندگیاں گزار رہے ہیں۔ جیسے اس شہر کے مخالف لوگ چاہتے تھے۔ یہ شکایت کراچی کو اس کے رہنے والوں سے ہے کہ انہوں نے اس شہر کے ساتھ اتنا بُرا ہونے کیوں دیا۔ کیوں انہوں نے اس شہر کی خوبصورتی کو ماند کر دیا۔ آج کراچی کی اس شکایت پر سب اپنا موازنہ کریں کہ آنے والے وقت میں انہیں کیا کرنا ہے؟