اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا اردو اور قومی لباس میں خطاب

548

 

محمد مظفر الحق فاروقی

یہ ستمبر 2018ء کی بات ہے جب 18 اگست 2018ء کو وزیراعظم عمران خان کو حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعد ایک بڑے بین الاقوامی فورم پر جانے کا موقع ملا۔ یہ اقوام متحدہ کے 73 ویں جنرل اسمبلی میں خطاب کا موقع … عمران خان صاحب ’’تبدیلی‘‘ کا ایک مقبول نعرہ لے کر سیاست اور حکومت کے میدان میں آئے تھے۔ لوگ ہر ہر شعبے میں اس نئی حکومت سے تبدیلی کی توقع کررہے تھے۔ 70 سال کی یکسانیت اور لوٹ مار کی سیاست سے عاجز آچکے تھے اور تبدیلی کی تمنا کررہے تھے۔ لوگ اس موقع پر بھی تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ستمبر 2018ء کے پہلے ہفتہ میں میرا ایک کالم روزنامہ جسارت میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا۔ ’’اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب اردو میں کیوں نہیں!‘‘۔ اسی کالم کے شائع ہونے کے صرف چار دن بعد اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب اردو میں ہوگا۔ میرا جو کالم جسارت میں آیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ دوسرے تمام ممالک کے رہنما اپنی قومی زبان میں اقوام متحدہ میں خطاب کررہے ہوتے ہیں تو پاکستان کا وزیراعظم، صدر یا وزیر خارجہ اپنی قومی زبان میں کیوں نہیں خطاب کرتا۔ مثلاً جرمنی کا نمائندہ جرمن زبان میں، فرانس کا فرنچ میں، ایران کا فارسی میں، عرب ملک کا عربی میں، ہندوستان کا ہندی میں تو ہم کیوں احساس کمتری کا شکار نظر آتے ہیں اور انگریزی میں خطاب کررہے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے نریندر مودی یا آنجہانی سشما سوراج کی ہندی کتنے لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے مگر وہ ہندی بولتے ہوئے نہیں شرماتے اور اپنی زبان بولتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم کب تک انگریزوں اور انگریزی کی محبت میں مرتے رہیں گے کیا اس سے ہمارے وقار میں اضافہ ہوگا۔ اپنی قومی زبان سے نفرت اور انگریزی سے محبت دنیا کی نظروں میں ہمارے قد کو چھوٹا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
اسی طرح 2018ء میں اقوام متحدہ میں اپنے وزیر خارجہ کی اردو میں تقریر ’’تبدیلی‘‘ کی ہلکی سی تازہ ہوا ثابت ہوئی۔ رات ہوچکی تھی جب ہم نے اپنے وزیر خارجہ کی تقریر سنی۔ وہ ہمیشہ اچھی اردو بولتے ہیں۔ اُسی وقت اس بات کا افسوس ضرور ہوا کہ وہ قومی زبان میں تقریر کررہے تھے مگر جسم پر انگریزی لباس تھا۔ بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ جب دوسری قوموں کے نمائندے اپنی قومی زبان میں بولتے اور اپنا قومی لباس زیب تن کرتے ہیں تو ہم لباس میں احساس کمتری کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے ہم اقوام متحدہ کی کارروائی دیکھ رہے ہیں ہم نے آج تک ہندوستان کے کسی نمائندے کو انگریزی سوٹ میں اس بین الاقوامی فورم پر خطاب کرتے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ اپنے قومی لباس میں ہی نظر آتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کو ہم ڈکٹیٹر کہتے ہیں مگر ان دونوں سربراہوں نے جب بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا قومی لباس میں کیا۔ سیاستدانوں کے بدن سے انگریزی سوٹ نہیں اُترتا۔ جہاں تک ہم نے عمران خان کو سمجھا ہے یہ شخص ایک کردار رکھتا ہے، بے لچک شخصیت کا مالک ہے، آپ کتنی ہی برائی کریں اس شخص میں ایک خوبی ہے اور وہ ہے اس کا دیسی وزیراعظم ہونا عمران خان کو ہم نے انگریزی بولتے سنا اور دیکھا ہے ان کی انگریزی اچھی ہے کیوں نہ ہو انہوں نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی ذہنیت غلامانہ نہیں ہے، سیاست اور حکومت دونوں روپ میں ہم نے اس شخص کو دیکھا ہے، یہ شخص ہمیشہ قومی لباس میں نظر آیا۔ اس طرح قومی امید ہے بلکہ ایک سو ایک فی صد امید کہ 27 ستمبر 2019ء کو اپنے وزیراعظم عمران خان صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کررہے ہوں گے تو ان کی زبان قومی زبان اردو ہوگی اور جسم پر سفید یا سیاہ رنگ کی شیروانی۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اس طرح عمران خان اقوام متحدہ میں ایک تاریخ رقم کرکے آرہے ہوں گے مگر ہر شخص یہ کہنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ ایک خوبصورت تبدیلی نظر آرہی ہے۔
193 ممالک کے سیکڑوں مندوبین کے درمیان اپنی قومی زبان اور اپنے قومی لباس کی خوبصورتی یقینا ایک خوبصورت تبدیلی ہوگی۔ عمران خان ایسے شخص نہیں ہیں جنہوں نے میری ذاتی رائے میں کبھی انگریزی سوٹ نہ پہنچا ہو۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جب سے عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا ہے وہ ایک قومی لیڈر کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے شاید ہمیشہ کے لیے انگلش سوٹ کو قومی لباس پر ترجیح دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ترک کردیا ہے۔ ایک اچھا انسان اور ایک اچھا رہنما اپنی قوم، اپنی قومی زبان اور اپنے قومی لباس سے محبت کرتا ہے۔ بات انگریزی سوٹ پر آئی تو مشاہدے میں دو تین شخصیات ایسی آئی ہیں جن کے طرز عمل سے تھوڑا دکھ ہوتا ہے اور تبصرہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمارے کچھ لیڈر ایسے ہیں جن کا کوئی رُخ یا قبلہ نہیں۔ میں اپنے سندھ کے وزیراعلیٰ محترم مراد علی شاہ صاحب سے کہنا چاہوں گا۔ اُس دن آپ بہت بُرے لگ رہے تھے جب کراچی کے لوگ 44 ڈگری سینٹی گریڈ میں جھلس رہے تھے۔ اُس دن تو آپ شلوار قمیص میں نظر آئے مگر ہم نے دیکھا کیمروں نے دکھایا اس چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں آپ انگریزی سوٹ ٹائی میں نظر آرہے تھے۔ آپ تو اُس لیڈر کے ماننے والے ہیں جو بے حد امیر تھا، وہ مہنگے ترین انگریزی سوٹ زیب تن کرتا تھا۔ دنیا کی مہنگی ترین شراب شیمپین سے لطف اندوز ہوتا تھا مگر عوام میں آیا، عوامی نمائندہ اور ’’قائد عوام‘‘ کہلوایا تو شلوار قمیص پہننے لگا۔ مراد صاحب شاید آپ جمعہ کی نماز بھی سوٹ اور ٹائی میں پڑھتے ہوں گے۔ کچھ روز پہلے کی بات ہے آپ اور گورنر سندھ قائد اعظم کے مزار پر 11 ستمبر کو فاتحہ پڑھنے گئے، بھائی اس دن تو قوم کے بابا کے مزار پر آپ قومی لباس پہن کر فاتحہ پڑھ لیتے۔ آگے چلتے ہیں ہم شیخ رشید احمد صاحب کو ایک دیسی اور عوامی لیڈر سمجھتے تھے۔ چار چھ ماہ پہلے کی بات ہے وہ لندن گئے، سوٹ اور سرخ ٹائی میں وہ کچھ اچھے نہ لگے، مگر وہ قومی لباس پہنتے ہوئے شرمائے۔ بھائی یہ انگریزوں کا دیس ہے کتنی غلط بات ہوگی کہ ہم انگریزوں کی دھرتی پر شلوار قمیص پہن کر آئیں۔
بات قومی زبان سے قومی لباس کی طرف چلی گئی۔ اگر ہم ایک زندہ قوم ہیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی روایات کو عزیز رکھتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں تو اپنی قومی زبان کو بولتے ہوئے فخر محسوس کریں اور اپنے قومی لباس کو زیب تن کرکے اپنے قد کو بلند محسوس کریں۔ قومی زبان اور قومی لباس کے سلسلے میں ہم جس احساس کمتری کا شکار ہیں، احساس کمتری کے لباس کو ہم کب اُتاریں گے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب غریب اور عام آدمی کے پاس نہیں، ہمارے اکابرین اور رہنمائوں کے پاس ہے۔ امید ہے ہمارے وزیراعظم قومی زبان اور قومی لباس کے ذریعے اقوام متحدہ کی فضائوں سے پاکستان کی ہوائوں کو تبدیلی کا ایک خوشگوار پیغام دیں گے۔ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے۔