The Sindh Terms of Employment Standing Orders Act, 2015

1502

رانا محمود علی خان

دی سندھ ٹرم آف ایمپلائمنٹ (اسٹینڈنگ آرڈر) ایکٹ 2015 21مارچ2016کو سندھ اسمبلی نے اس ایکٹ کو پاس کیا اور 25اپریل2016کو گورنر سندھ نے اس ایکٹ کی منظوری دی جس کے بعد اس ایکٹ کو قانونی حیثیت ملی یہ ایکٹ دو شیڈول پر مشتمل ہے پہلا شیڈول 14دفعات پر مشتمل ہے جب کہ شیڈول اسٹینڈ نگ آرڈر میں 13دفعات شامل ہیں اس طرح سے یہ ایکٹ 37دفعات پر مشتمل ہے اس مضمون میں میں اس ایکٹ کے مثبت پہلو اور منفی پہلو کو اجاگر کر رہا ہوں ۔
(1ایکٹ کے مثبت پہلو۔
ایکٹ کی دفعہ 1(4)کے مطابق اس ایکٹ کا اطلاق ہر اس صنعتی ادارے پر ہوگا جہاں کم سے کم دس افراد ملازم ہوں اس سے قبل ویسٹ پاکستان اسٹینڈنگ آرڈر آرڈیننس میں یہ تعداد 20تھی دفعہ 1(4b)کے مطابق ایکٹ کی دفعہ 13اور15کی کلاس 6اور دفعہ 17اور 20کی سب کلاس 8کا اطلاق 20ملازمین پر ہوگا دفعہ 13اور 15کی کلاس (6)اور (8)کی دفعہ 13بونس کے متعلق ہے جب کہ ویسٹ پاکستان اسٹینڈنگ آرڈر آرڈریننس میں یہ دفعہ 10(c)کے نام سے مشہور تھی دفعہ15(1)کا تعلق Clouser of Establishmentسے ہے ۔
نوٹ 6اور8کلاس دفعہ 13میں شامل نہیں بلکہ دفعہ16میں شامل ہے دفعہ16کی سب کلاس 6کا تعلق گریجویٹی سے ہے یہ ہر اس ادارے پر اس کا اطلاق ہوگا جس ادارے میں کم سے کم 20ملازمین کام کرتے ہوں اس سے قبل ویسٹ پاکستان اسٹینڈنگ آرڈر1968میں یہ تعداد50تھی سب کلاس8کا تعلق انتقال کرجانے والے ورکر ز کی گریجویٹی Dependentکو ادا کی جائے گی دفعہ17کا تعلق سروس سرٹیفیکٹ اور دفعہ20کا تعلق کنسٹرکشن ورکرز سے ہے اس کا اطلاق بھی 20ملازمین پر ہوگا ۔
(2Schedule Standing Order (Classification of Worker)
(a) Worker Shall be classified as
(i) Permanent;
(ii) Probationer;
(iii) Badly
(iv) Temporary
(v) Apprentice;
(vi) Contract Worker
اس ایکٹ میں ورکر کی Categoryمیں کنٹریکٹ ورکر کا اضافہ کیا گیا ہے جب کہ اس سے پہلے کے قانون میں یہ دفعہ موجود نہیں تھی کنٹریکٹ ورکرز کی تعریف شیڈول اسٹینڈنگ آرڈر کی دفعہ 1(g)میں اس طرح سے کی گئی ہے
(g) A “contract worker” means a worker who works on contract basis for a specific period mentioned in the contract, in any establishment but does not include the third party employment.
کنٹریکٹرورکرز مڈل مین کے ذریعے بھرتی نہیں کیا جائیگا بلکہ صنعتی ادارے از خود برائے راست کنٹریکٹ ورکرز کو بھرتی کرنے کا مجاز ہوگا۔
(3ورکر کی تعریف
اس ایکٹ کی دفعہ 2(n)میں ورکر کی تعریف کی گئی ہے ورکر کی اس ایکٹ میں جو تعریف کی گئی ہے وہ خاصی بہتر نظر آتی ہے ایکٹ کی اصل دفعہ کے الفاظ اس طرح سے تحریر کئے گئے ہیں۔
(n) “Worker” means any person employed in any industrial establishment or commercial establishment or a mine to do any skilled or unskilled, manual or clerical work for hire or reward and includes permanent, probationer, badli, temporary, apprentices and contract workers, but does not include occupier and manger having the hiring and firing authority provided that no worker shall be employed through an agency or contractor or sub-contractor or middleman or agent, to perform function relating to their contract of employment.
اس دفعہ میں ٹھیکیدارمڈل مین اور نان ورکرز کی واضح تعریف کی گئی ہے ۔
(4بونس
شیڈول اسٹینڈنگ آرڈر کی دفعہ13میں بونس کے متعلق جو فارمولا دیا گیا ہے وہ اس سے قبل اسٹینڈنگ آرڈر کی دفعہ 10(c)میں دئیے گئے فارمولے سے کافی بہتر ہے اور یہ فارمولا اسطرح سے ہے ۔
(1)اگر ادارے کا منافع ایک ماہ کی تنخواہ جو کہ ملازمین کو دی جاتی ہے سے کم نہ ہوکو بونس اسطرح سے ادا کیا جائیگا جو نفع کے تیس فیصد سے کم نہ ہو اگر پرافٹ Rs.1,20,000.00ہے اور ورکرز کے ویجیز کل Rs.30,000.00 ہے تو بونس ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر ادا کیا جائیگا جو کہ Rs.30,000.00 ہوگا تیسرا فارمولا یہ دیا گیا ہے کہ اگر منافع Rs.30,000.00ہوا اور ورکر کی کل تنخواہ بھی Rs.30,000.00 ہے تو بونس تیس فیصد سے کم ادا نہیں کیا جائیگا جو کہ Rs.9,000.00بونس ہوگا اگر منافع کی رقم پیراگراف نمبر(a)میں دئے گئے سے کم ہو تو بونس پندرہ فیصد ادا کیا جائیگا۔
(5کارڈ
اسٹینڈنگ آرڈر سندھ کی دفعہ 2میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ ہر ادارہ ورکر کو جو کہ Permanentورکر ہوں Permanentکارڈ جاری کریگا اور ڈیپارٹمنٹ کا ٹکٹ نمبرادارہ کا مجاز افسر جاری کریگا اسی طرح سے اگر کوئی بدلی ورکر بھرتی کیا گیا تو اسکو بھی بدلی ورکرز کی حیثیت سے کارڈجاری کریگا بدلی ورکر کے علاوہ عارضی ورکر ، Apprentice ورکر کنٹریکٹ ورکرز کو بھی کارڈ نمبرجاری کرنے کا ہر ادارہ پابند ہے ۔
ٔ٭دفعہ 3میں یہ واضح طور پر تحریر کیا گیا اگر کوئی ورکرز بھرتی کیا گیا تو اسکو بھرتی لیٹر دینا ضروری ہے اور ٹرمز اینڈ کنڈیشن اور ویجیز اس میں تحریر کرنا لازمی ہے اسی طرح سے دفعہ3(2)میں تحریر کیا گیا کسی ورکر کو ٹرانسفر یا ترقی دی گئی اسکو بھی تحریر ی آرڈر دینا ضروری ہے اور اس میں تنخواہ اور ٹرمز اینڈ کنڈیشن بھی تحریر کرنا لازمی ہے ۔
(نوٹ-:حقیقت یہ ہے کہ قانونی بہت صاف اور ستھرا ہے کہ ہر ورکرز کو بھرتی لیٹر شرائط ملازمت ،تنخواہ اور ٹکٹ نمبر اور فیکٹری کارڈ دینا لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن ستم ظریقی یہ ہے کہ آج بھی سندھ کی صنعتی ادارے کی بڑی تعداد ایسی ہے جو ورکرز کی بڑی تعداد کو نہ بھرتی لیٹر دیتے ہیں اور نہ ہی کارڈ جب کہ اسٹینڈنگ آرڈر کے تحت یہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر صنعتی ادارے میں اس شق پر عملدرآمد کرائیں اور ہنگامی بنیادوں پر پوری سندھ کے صنعتی اداروں میں Inspectionٹیم بنا کر اس اطلاق کو لاگو کروائیں )
٭ہر آجر پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے میں اسٹینڈنگ آرڈر کے مطابق اسٹینڈنگ آرڈر کے وہ شق جو محنت کشوں کے متعلق ہوں بورڈ پر اردو میں تحریر کر کے چسپاں کریں جس میں چھٹیاں ،تنخواہیں،شفٹ اور دیگر ہدایتیں واضح کریں ۔
٭فیکٹری ایکٹ کے تحت ہر ورکر سالانہ چھٹیاں ،تہواری چھٹیاں ، اتفاقی چھٹیاں اور بیماری کی چھٹیاں جو فیکٹری ایکٹ کے Chapter -IV-Aمیں تحریر ہیں دینے کا پابند ہے۔
.6لازمی گروپ انشورنس
اس ایکٹ میں ہر صنعتی ادارہ جس میں کم از کم 20ملازمین کام کرتے ہوںوہ اس کا پابند ہے کہ ڈیوٹی پر موجود انتقال کرنے والے ورکرز کو گروپ انشورنس کی رقم ادا کریں اس سے قبل اسٹینڈنگ آرڈر 1968میں اس کا اطلاق 50 ورکرز جس صنعتی ادارے میں کام کرتے تھے پر لاگو ہوتا تھا لیکن سندھ کے ایکٹ میں یہ بہت اچھی تبدیلی آئی ہے اور 20 ورکرز کی تعداد کا مقرر کرنا یہ بہت پرانا مطالبہ تھا اس کے علاوہ یہ رقم دو لاکھ سے بڑھ کر اب پانچ لاکھ روپے ہو گئی ہے اگر کوئی ایمپلائر اس کی ادائیگی نہ کرے تو ورثاء اتھارٹی انڈر پیمنٹ آف ویجیز ایکٹ میں کیس داخل کر سکتے ہیں ۔
.7بونس
اس سے قبل 1968کے اسٹینڈنگ آرڈر میں 10(c)بونس کے نام سے یہ عام ٹریڈ یونین ورکر زاس سے بخوبی واقف ہیں 1968کے اسٹینڈنگ آرڈر کے مقابلہ میں سندھ ٹرمز آف ایمپلائیمنٹ اسٹینڈنگ آرڈر کی دفعہ13میں بونس کی ادائیگی کا طریقہ کار تحریر کیا گیا ہے میں اسکی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ دفعہ13کے بونس ہر حال میں گراس تنخواہ پر ادا کیا جائیگا نہ کی بنیادی تنخواہ پے ۔
٭فیکٹری کے بریک ڈائون ہونے پر دفعہ14کے تحت فیکٹری کا عارضی طور پر بند کرنے کا طریقہ کار تحریر کیا گیا ہے لے آف ہونے کی صورت میں ورکر ز آدھی تنخواہ کا حقدار ہے دفعہ16میں ورکرز کو برطرف کرنے کا طریقہ کار طے کیا گیا ہے اگر کوئی ورکرز برطرف کیا گیا ہے تو وہ اس کا حقدار ہوگا کہ جتنے سال اس نے سروس کی ہے ایک ماہ کی گریجویٹی گراس تنخواہ پر ادا کرے لیکن اگر آخری سال کی ملازمت چھ ماہ ہو چکی ہو تو اسکو پورا سال تصور کیا جائیگا اگر کسی صنعتی ادارے میں Providentفنڈ نافذ ہے تو ایسی صورت میں Providentفنڈ کی رقم گریجویٹی کی رقم سے کم بنے تو ورکر گریجویٹی لینے کا حقدا ر ہوگا یعنی Providentفنڈ اور گریجویٹی میں جو رقم زیدہ ہو ورکر اس رقم کو لینے کا مجاز ہوگا ۔
.8سیزنل ورکر ز بھی گریجویٹی کا حقدار۔
سیزنل ورکر ز کا پرانہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سندھ کے اسٹینڈنگ آرڈر2015میں دفعہ16میں ورکرز برطرفی کرنے پر جو مراعات تحریر کی گئی ہیں دفعہ16(6)میں یہ تحریر کیا گیاہے کہ سیزنل ورکر بھی ایک ماہ گریجویٹی کا حقدار ہے او ر یہ سیزنل ورکر کی گریجویٹی ایک سیزن میں کام کرنے پر ایک ماہ کی گریجویٹی کا حقدار ہوتا ہے یہ شق بڑی اہم ہے اور ہزاروں سیزنل ورکرز اب گریجویٹی کے حقدار ہونگے ۔
.9سزائیں
دفعہ21میں ورکر کو ڈسمس کرنے اور سزا دینے کا طریقہ کار تحریر کیا گیا اس دفعہ میں یہ تحریر کیا گیا کہ بغیر چارج شیٹ اور غیر جانبدارانہ انکوائری کئے بغیر کسی ورکر کو ڈسمس نہیں کیا جا سکتا چارج شیٹ 30دن کے اندر دینا لازمی ہے 30 دن کے بعد کی چارج شیٹ ٹائم بارڈ ہے غیر جانبدارانہ انکوائری تحریر طور ضرور کی گئی ہے لیکن ورکر کو اس کا فائدہ اس لئے نہیں ہوتا ہے کہ ایمپلائر اپنے کسی افسر سے انکوائری کرواتا ہے جو انصاف کے معاروف اصولوں کے خلاف ہے اور غیر جانبدارانہ انکوائری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ڈسمس ورکر گریجویٹی لینے کا حقدار نہیں ہے۔
.10لیبر ڈیپارٹمنٹ کا اختیار
لیبر ڈیپارٹمنٹ کا مجاز انسپکٹر اسٹینڈنگ آرڈر کی خلاف ورزی پر لیبر کورٹ میں شکایت داخل کرنے کا مجاز ہے شکایت ثابت ہونے پر ایمپلائر پر جرمانہ عائد کیا جائیگا اور جرمانہ کی ادائیگی کے باوجود ایمپلائر اپنا جرم جاری رکھے تو دوبارہ لیبر کورٹ میں مجاز اتھارٹی شکایت داخل کرنے کی مجاز ہے جس پر ہر دن کے حساب سے جرمانہ ہوگا لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ اسٹینڈنگ آرڈر کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور لیبر کورٹ میں شکایت بھی داخل نہیں کرتا ۔
منفی پہلو
سندھ انڈسٹریل رلیشن ایکٹ اسٹینڈنگ آرڈر 1968کے مقابلہ میں کافی بہتر ہے لیکن سندھ اسٹینڈنگ آرڈر2015میں Closure of establishmentکے لئے جو طریقہ کار تحریر کیا گیا وہ انتہائی خراب او ر قابل اعتراض ہے اس سے پہلے اسٹینڈنگ آرڈر1968کی دفعہ11(a)جو مشہور دفعہ تھی فیکٹری بند کرنے کے لئے لیبر کورٹ سے اجاز ت لینی تھی لیکن اب حکومت سندھ کو فیکٹری بند کرنے کے لئے درخواست دینی ہے اسکا مطلب حکومت سندھ سیکریٹری لیبر ہے اور ایسی درخواست پر اگر سیکریٹری لیبر 15دن تک کوئی فیصلہ نہ کرے تو آجر کی درخواست منظور سمجھی جائیگی اور وہ فیکٹری بند کرنے اور50فیصد سے زائد ورکرز نکالنے کا مجاز ہوگا یہ کرپشن کا باب کھولا گیا ہے تا کہ حکومت سندھ کے سیکریٹری لیبر، ڈائریکٹر لیبر اجازت دینے کی من مانی قیمت وصول کر سکیں ۔
میری آخری گزارش ٹریڈ یونین لیڈروں سے ہے کہ یہ قانون بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکا تعلق شرائط ملازمت سے ہے ہر ٹریڈ یونین عہدیدار کو خصوصاً صدر اور جنرل سیکریٹری کو اس آرڈیننس کے تحت جو مراعات برطرفی کا جو طریقہ کار تحریر کیا گیا ہے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ بڑا اہم قانون ہے ۔