سقوط کشمیر، اقوام متحدہ کیا کر لے گی؟

354

سقوط کشمیر کے بعد کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے وزیر اعظم عمران نیازی نے قوم کو پھر ایک لالی پاپ دے دیا ہے ۔ مظفرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرا عظم نے کشمیریوں سے کہا کہ کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دیںاور کشمیر کا مقدمہ لڑنے دیں ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے لیے ایسا اسٹینڈ لوں گا جو آج تک کسی نے نہیں لیا ۔ پوری پاکستانی قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے گزشتہ 72 برسوں میں اقوام متحدہ نے کیا تیر مارلیا جو اب اس سے امیدیں رکھی جارہی ہیں ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی متفقہ منظور کردہ قراردادیں موجود ہیں مگر ان قراردادوں پر عملدرآمد کی نہ تو کوئی عملی صورت موجود ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کو اس سے کوئی دلچسپی ہے ۔ اب 27 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک جذباتی تقریر کرنے کے سوا وزیر اعظم عمران نیازی مزید کیا کرسکیں گے جو وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ 27 ستمبر کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ وزیر اعظم عمران نیازی نے امریکی صدر ٹرمپ سے متوقع ملاقات کا بھی ذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ جیسے اس میں کوئی بڑا بریک تھرو ہونے والا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 5 اگست کو جو قدم مودی نے اٹھایا ہے ، اس کا علم ٹرمپ اور عمران نیازی کو پہلے سے تھا ۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا ذکر کرکے پوائنٹ اسکورنگ کی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران نیازی تو اس پر پھولے نہ سمائے کہ انہوں نے اسے کرکٹ کے ورلڈ کپ کی دوسری فتح سے تعبیر کردیا ۔ عملی طور پر ٹرمپ نے نہ صرف سقوط کشمیر کو تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی حمایت کرتے ہوئے پاکستانیوں ہی کو تحمل کی ہدایت کی ہے ۔ وزیر اعظم عمران نیازی نے روسی ٹیلی وژن رشین ٹوڈے کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں شکوہ کیا ہے کہ عالمی برادری کے لیے معیشت اور تجارت زیادہ اہم ہے اورعالمی برادری نے سقوط کشمیر پر وہ ردعمل نہیں دیا جو دیا جانا چاہیے تھا ۔ اپنے انٹرویومیں وزیر اعظم عمران نیازی نے واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور وہاں کی صورتحال شام سے بھی بدتر ہوسکتی ہے ۔ جس لمحے وزیر اعظم عمران نیازی عالمی برادری کو معیشت اور تجارت عزیز ہونے کا طعنہ دے رہے تھے ، اس لمحے بھی پاکستان نے بھارت کا معاشی مقاطعہ نہیں کیا تھا۔ بھارت سے درآمدات بھی جاری ہیں اور برآمدات بھی ۔ ماوے اور گٹکے سمیت دیگر مضر صحت اشیاء کی اسمگلنگ بھی اسی زور شور سے جاری ہے اور پاکستان کی فضاؤں پر سے بھارتی طیارے بھی اسی طرح دندناتے ہوئے گزررہے ہیں ۔افغانستان سے تجارت کے بہانے بھارتی مصنوعات سے لدے ٹرک بھی پاکستانی سڑکوں کو روندتے پھر رہے ہیں ۔ جو ملک اپنی فضاؤں پر سے بھارتی طیاروں کی آمدورفت پر پابندی نہیں لگاسکتا اور اپنے ملک سے قیمتی پہاڑی نمک کی کوڑیوں کے مول بھارت کو برآمد نہیں روک سکتا وہ کس منہ سے عالمی برادری کو معیشت اور تجارت پر مطعون کرسکتا ہے ۔ اقوام متحدہ تو بھارت کے خلاف اس وقت کوئی ایکشن لے گی جب پاکستان کوئی ایکشن لینے میں سنجیدہ ہوگا ۔ پاکستان میں تو عملی طور پر یہ صورتحال ہے کہ ہر سطح پر سقوط کشمیر کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور روز بیانات کی توپ چلائی جاتی ہے کہ بھارت نے پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو اس کی آنکھ نکال لی جائے گی ۔ جمعہ کو بھی وزیر اعظم عمران نیازی کے اتحادی اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے مظفر آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان جان ہتھیلی پر رکھ کر مودی کے حملے کا انتظار کررہے ہیں ۔ پوری حکومت کے نزدیک سقوط کشمیر پاکستان پر حملہ ہی نہیں ہے اور وہ گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں کہ بقیہ پاکستان پر حملہ ہوا تو دیکھ لیا جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت پاکستان پر اب حملہ کرے گا ہی کیوں ۔ اسے جو حاصل کرنا تھا ، وہ اس نے حاصل کرلیا ۔ حکومت پاکستان کا یہ بیانیہ کہ اسے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی ، ہر سطح پر واضح ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھی اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کا تو مطالبہ کیا مگرمقبوضہ وادی کی 5 اگست سے پہلے کی حیثیت کی بحالی اور پھر وہاں پر استصواب رائے کروانے کے مطالبے سے اجتناب کیا ۔ اس سب کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران نیازی اوران کے سیلیکٹرز نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کو تسلیم کرلیا ہے اور اس بھارتی اقدام کی مزاحمت کا ان کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی سب مل کر مودی کو کہتے ہیں کہ اب کی مار تو بتاؤں اور کبھی مقبوضہ کشمیر میں جبر ، تشدد اور انسانی المیے کا نام لے کر اصل مسئلہ کشمیر سے پاکستانیوں اور پوری دنیا کی توجہ ہٹاتے ہیں ۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو لگایا ہی لیے ہے اور وہاں پر آر ایس ایس کے غنڈے اور بھارتی فوجی اسی لیے بدترین مظالم کررہے ہیں کہ دنیا کی توجہ اصل مسئلے سقوط کشمیر سے ہٹائی جاسکے جس میں وہ کامیاب ہیں۔ سقوط کشمیر کا تذکرہ نہ کرکے اورکشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی اور پھر وہاں استصواب رائے کرانے کا مطالبہ نہ کرکے صرف مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا ڈھنڈورا پیٹ کر پاکستان بھارت کا کشمیر پر تسلط مستحکم کرنے میں عملی مدد کررہا ہے ۔پاکستان کو چاہیے کہ دنیا کو بتائے بھارت کو مقبوضہ وادی میں 9 لاکھ فوج اس لیے رکھنے کی ضرورت پڑ رہی ہے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ۔ اس حریت پسندی کو کچلنے کے لیے بھارت نے وہاں پر بہیمانہ تشدد کا بازار گرم کردیا ہے۔ وزیر اعظم عمران نیازی میر جعفر بننے کے بجائے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی تسلط کے خاتمے کی دو ٹوک بات کریں ۔