حکومتی نااہلی اور غیر ذمے داری کا ایک اور تماشا

621

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

حکومت نے ایک بار پھر اپنی نااہلی، ناتجربہ کاری، غیر ذمے داری، غیر دانشمندی اور جلد بازی کا ثبوت دیتے ہوئے GIDC پر ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ جس کے تحت کھاد بنانے والی، بجلی پیدا کرنے والی اور ٹیکسٹائل کمپنیوں پر 208 ارب روپے معاف کردیے گئے اور اس کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ آرڈیننس قانون کے مطابق ہے، عوام کے مفاد میں ہے اور اس میں شفافیت ہے لیکن جب پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر تنقید اور مخالفت کا طوفان کھڑا ہوا تو واپس لے لیا گیا۔ اگر اس کے دفاع میں جو باتیں حکومت کی طرف سے کہی جارہی تھیں وہ درست تھیں تو اسے واپس کیوں لیا گیا۔ اس سے خودبخود یہ بات سامنے آئی کہ کچھ دال میں کالا ہے۔
GIDC یعنی گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس ایک ٹیکس ہے جو نئی گیس پائپ لائنیں بچھانے کے لیے 2011ء میں اُن کمپنیوں پر لگایا گیا تھا جو اپنی پیداوار کے لیے گیس استعمال کرتی ہیں۔ اس ٹیکس کے خلاف بہت سی کمپنیاں سپریم کورٹ چلی گئیں، بعض فیصلوں میں یہ ٹیکس کالعدم ہوگیا اور بعض میں حکم امتناعی جاری ہوا۔ لیکن یہ کمپنیاں اپنی پیداوار کی قیمت میں یہ ٹیکس عوام سے وصول کرتی رہیں لیکن انہوں نے حکومت کو یہ رقم ادا نہیں کی۔ مثلاً اس سے کھاد کی فی بوری قیمت میں چار سو روپے کا اضافہ ہوگیا۔
اب کہا یہ جارہا ہے کہ کچھ رقم یعنی 295 ارب روپے حکومت کو مل چکے ہیں جب کہ باقی 418 ارب روپے کمپنیوں پر واجب الادا تھے۔ حکومت نے کورٹ سے باہر ہی باہر اِن کمپنیوں سے یہ بات طے کرلی کہ وہ عدالتی کارروائی میں نہیں جائیں گی اور آدھی رقم معاف کردی جائے گی۔ لیکن اس پر یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ کیا ان کمپنیوں نے 418 ارب روپے ہی عوام سے وصول کیے یا اس سے بھی زیادہ وصول کیے۔ اس کا جواب فرانزک آڈٹ سے ملے گا جو حکومت نے نہیں کرایا۔ شدید مخالفت اور تنقید سے گھبرا کر حکومت نے یہ آرڈیننس واپس لے لیا اور یہ اعلان کیا کہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، لیکن اس راستے پر جانے سے حکومت کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ فیصلہ حکومت کے حق میں آئے اور ساری رقم کمپنیوں کو ادا کرنی پڑے۔ دوسری صورت میں حکومت کے خلاف فیصلہ آنے پر حکومت کو 295 ارب دینے پڑیں گے جو حکومت کے لیے بہت بھاری ہوں گے کیوں کہ اس وقت سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے اور اس میں اضافے کے لیے حکومت ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ سال رواں کے دو ماہ میں ٹیکس کی وصولی میں 64 ارب روپے کی کمی آئی ہے اور یہ کمی کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، یعنی سب ہی میں آئی ہے۔ وجوہات اس کی بہت سی ہیں۔ مثلاً کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لیے امپورٹ میں کمی کی گئی اس سے امپورٹ ڈیوٹی کی وصولی میں کمی ہوئی۔ بھاری شرح سود اور غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے صنعتی شعبہ متاثر ہوا اس سے اس شعبہ کا کم ٹیکس وصول ہوا۔ اس طرح مارکیٹ میں منفی رجحانات (Negative Sentiments) اور غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے نجی شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کاروبار سست روی کا شکار ہوگا تو ٹیکس کیسے جمع ہوگا۔
علم معاشیات کی رو سے ایسے معاشی حالات میں جب نجی شعبہ آگے نہ آرہا ہو اور وہ شکوک و شبہات کا شکار ہو، سرکاری شعبہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، ایسے میں سرکاری شعبہ عوامی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبے تشکیل دے کر انہیں فنڈ مہیا کرتا ہے اور اس طرح اشیا کی مجموعی طلب (Aggregate, Demand) میں اضافہ ہوتا ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی اپنی پیداواری سرگرمیاں شروع کرتے ہیں اس طرح معیشت کا پہیہ آہستہ آہستہ چلنے لگتا ہے، روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں اور ٹیکسوں کی وصولی بھی بہتر ہوجاتی ہے۔ پچھلے سال 2018-19 میں حکومت نے اس کے برعکس فیصلہ کرتے ہوئے پیداواری اخراجات میں 25 فی صد کمی کردی۔ اس سے ٹیکس وصولی بھی کم ہوگئی اور مالی خسارہ 3440 ارب روپے یا جی ڈی پی کے 8.7 فی صد تک جاپہنچا، اس سال حکومت کو اپنی پالیسی بدلتے ہوئے پیداواری اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا، کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، نئے کاروبار کو شروع کرنے کے عمل کو آسان بنانا ہوگا اور معاشی اصلاحات کے عمل کو حکومت کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھانا ہوگا اور معاشی حالات اور زیادہ تباہی اور خرابی کی طرف جاسکتے ہیں۔