چار ستمبر یومِ حجاب

169

اظہراقبال حسن
ڈپٹی سیکرٹری جنرل ،جماعت اسلامی پاکستان

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشادفرمایاہے:
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیاکرو۔ یہ زیادہ منہسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘۔(سورۃ الاحزاب:17)
پردے کاعالمی دن ہرسال 4؍ستمبرکو پوری دنیا میں منہیںا جاتا ہے۔ اس روز مسلم خواتین کی تنظیمیں، ایسوسی ایشنزاور NGO’s پردے کی اہمیت، ضرورت، افادیت اوردنیابھرکی خواتین کو آگاہی دینے کے لیے سیمی نہرز اور دیگر پروگرامات ترتیب دیتی ہیں اوراسلام کی روشن اورتابندہ تہذیب وتمدن کا اعلان اور اظہارکرتے ہوئے اسے اپنہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
دینِ اسلام نے عورت کوبہت ہی بلندمقام ومرتبہ، عزت و احترام اور ابدی حقوق سے نوازاہے جو دوسرے نظاموں اور مذاہب میں نہپید ہیں۔ دیگرنظام عورت کوصرف تشہیراوردیگر مقاصدکے لیے استعمال توکرتے ہیںمگر اس کے حقوق وفرائض کاتعین ہرگزنہیںں کرتے۔
پردہ کرنہ ایک عورت کا حق اور اس کا ذاتی معیارانتخاب ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر فرائض کی پابندی ضروری ہے اس طرح ایک عورت کے لیے پردہ کرنہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جبکہ پردہ نہ کرنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی، نہراضی کا سبب اور دنیا وآخرت میں رسوائی کاباعث ہے۔
یورپ کی تہذیب نے فیشن اور تشہیرکے مقاصد کے لیے عورت کو بے پردہ کردیاہے۔ عورت میں نمایاں ہونے کا شوق پیداکر کے اُس کی شخصیت سے کھیلا جارہاہے، اُس کو چُست، بھڑکیلے، باریک اور مختصرلباس کا شوقین بنہ کر اُس کی نسوانیت کو سربازارنیلام کر دیاہے، تعلیمی اداروں کو خصوصی ہدف بنہ کر نوجوان نسل کو بے راہ کیا جارہاہے اور اِس مقصد کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے تاکہ وہ بے پردہ ہو کر اپنہتماشاکرے، لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنے اور بُرائی کی دعوت کاذریعہ بنے۔
اللہ کے فضل وکرم سے مسلمان خواتین میں پردے اور حجاب کا رجحان مسلسل بڑھ رہاہے اور یورپ میں پردے پر پابندی کو قبول نہ کرکے اور ان قوانین کے خلاف قانونی جدوجہد کرکے مسلمان خواتین نے بیداری اور اسلامی اقدارسے محبت کا زبردست ثبوت دیاہے۔
پردہ عورت کی زینت، وقاراور حُسن ہے۔ یہ اسلامی معاشرے کی روح اور شعارہے اور پردہ کرنے میں ایک عورت کی عزت و حرمت محفوظ ہے۔ ایک مسلمان عورت اپنی مرضی و اختیار سے پردہ کرتی ہے، اس میں کسی کا جبرنہیںں ہے اورہر انسان کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دین اورکلچر پر آزادی سے عمل کرے او ر اس کے لیے کوئی اِنفرادی اور قانونی روک ٹوک نہ ہواوریہی دنیا کا دستورہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو تخلیق کیاہے۔ وہ ہی اُس کا خالق، رازق، پروردگاراورمالک ہے۔ وہ صرف اللہ ورسولؐ کے احکام کا پابند ہے۔ جبکہ انسانوں کے بنہئے ہوئے ایسے اصولوں اور قوانین کاپابندنہیںں ہے جو اللہ اوررسولؐ کے احکامات سے متصادم ہوں۔
2003؁ء میں فرانس، ہالینڈ اورڈنمارک میں حجاب پر پابندی لگادی۔ یورپ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور مسلمان مرد وخواتین کے اسلامی اقدارکو اپنہنے سے حکومتیں اور پالیسی سازادارے خوف زدہ ہیں۔ امت مسلمہ کی بیداری اور دینی شعائر سے محبت اور عمل پیرا ہونے کا شوق دیدنی ہے اور مغرب اسے اپنی خدابیزار، نفسانی خواہشات پرمبنی اور بے رُوح تہذیب وثقافت کے لیے خطرہ اور زوال کی علامت سمجھتا ہے۔
آج مغرب میں مادرپدرآزادی ہے اوربے راہ روی، شراب وکباب کی مجالس اور فحاشی وعریانی عام ہورہی ہے ۔ مغربی معاشرہ اخلاقی تباہی و بربادی کے کنہرے پرآن لگاہے۔ موجودہ حالات میں پردہ کرنے کو دقیانوسی اوردہشت کی علامات بنہ دیاگیاہے جو کہ سراسر نہانصافی، ظلم اور جہالت کے سِواکچھ نہیںں ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ اسلام اور اسلامی تہذیب وثقافت اورتمدن کو اپنے کھوکھلے کلچرکے لیے خطرہ محسوس کررہاہے۔ جسے مٹانے کے لیے منفی، بودے اور بے سروپا دلائل کاسہارالے کرجھوٹے پروپیگنڈے کااہتمام کررہاہے۔
اہل مغرب درحقیقت اسلامی تہذیب کی خوبیوں، برکات اور نعمتوں سے نہبلدہیں یاپھران کے دل ودماغ میں اسلام سے تعصب کی آگ بھڑکی ہوئی ہے جو انھیں کسی پَل اطمینہن کا سانس نہیںں لینے دیتی۔ بِلاشبہہ اسلامی تہذیب وکلچرہی انسانیت کاخیر خواہ ہے۔ اس کے اپنہنے سے انسان دنیا میں بھی اوررب کعبہ کے روبروبھی سرخرواور بامراد ہوسکتاہے۔ میں مشورہ دوں گا کہ ہر شخص مولانہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ کامطالعہ کرے تاکہ نہ صرف وہ خود اسلامی تہذیب وتمدن کی برکات کوجان کر اُن کو اختیار کرنے میں فخر محسوس کرے بلکہ غیر مسلموں کے زہریلے پروپیگنڈے کا بھی مدلل جواب دے سکے۔