اسلام میں حجاب کا تصور اور مغربی معاشرہ

2668

قدسیہ مدثر(راولپنڈی)
سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 میں اللہ ?تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اے نبی ﷺ اپنی بیویوں،بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔?اللہ غفور و رحیم ہے۔
قرآن میں اس آیت میں الخمار۔جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھر سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔تا کہ ستائی نہ جائیں۔
اللہ رب العالمین نے عورت کو صنف نازک کہا اور مستور کا لفظ استعمال کیا کہ چھپا کر رکھنے والی۔آپ کے مشاہدے میں یہ بات یقیناً آئی ہو گی جو چیز ہماری سب سے قیمتی ہوتی ہے ہم اسے چھپا کر رکھتے ہیں کہ کوئی اسے دیکھ نا لے اور اگر کوئی دیکھ لے تو اس کے دل میں بوجہ حسرت چوری کرنے کا اردہ نہ بن جائے۔?نے عورت کو بھی حکم دیا کہ
اے نبی ص مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور بنہؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خودبخود ظاہر ہو جائیں وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اسکا لوگوں کو علم ہو جا ئے۔(النور)
اس کی تشریح میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ عورتوں کو اپنی عصمت کا بچاؤ کرنہ چاہیے۔بدکاری سے دور رہیں اپنہ آپ کسی کو نہ دکھائیں۔اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں۔
پردہ نسواں سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی 70 روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب ہے۔یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو۔جو گھروں کی چار دیواری میں رہ کر ہو سکتا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جس بے راہ روی کا شکار ہے۔امت مسلمہ اپنہ قیمتی سرمایہ کھو چکی ہے ۔اور احساس زیاں بھی من حیث امت کم ہی باقی رہ گیا ہے کسی بھی معاشرے کی تعمیر کا بنیادی گھر۔مدرسہ ہیں اور آج ایک تیسرے یعنی میڈیا کا اضافہ ہو گیا ہے۔جہاں تعلیم گاہیں روشن خیالی کی جگہیں بن جائیں۔جہاں پڑھایا جانے والا نصاب اغیار کی آر زوئوںکے مطابق ہو وہاں کیسی نسل پروان چڑھے گی ؟
مغربی تہذیب مردو زن کو ایک دوسرے سے متصادم کرکے بہت بڑا فتنہ پیدا کرنہ چاہتی ہے۔وہاں عورت کو نہچ گانے اور تھرکنے کے کام پر لگا کر اسے شمع محفل بنہ دیا گیا۔لیکن جب اسکا حسن ختم ہو جاتا ہے تو وہ پھول کی طرح مرجھا جاتی ہے اور دل لبھانے والی چیز نہی رہتی تو اسے ایک بوجھ سمجھ کر گھر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔اسلامی تہذیب اور ہمارے معاشرے میں ماں۔بیوی۔بیٹی کو جو احترام حاصل ہے مغربی تہذیب میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ کے نازل کردہ نظام حیات میں پردے اور حجاب کے احکام کس حکمت کیساتھ دیے گئے ہیں۔جن اقوام نے ان پر عمل کیا اللہ ?نے انہیں اوج بام تک پہنچا دیا اور جس نے منہ موڑا ذلت و رسوائی اس کا مقدر ٹھہری
آج مغرب ہمیں بتا رہا ہے۔کہ عورت اور مرد میں مساوات ہونی چاہیے ان کے برابر کے حقوق ہونے چاہییں اور عورت کو روشن اور آزاد خیالی کا بہکاوا دے کر اسے شمع محفل بن کر بے پردہ کر دیا۔جبکہ ?اللہ نے عورت اور مرد دو الگ صنفیں بنائی ہیں دونوں کے جذبات ۔ ساخت۔احساسات الگ ہیں۔یہ اللہ ?کی حکمت ہے کہ اس نے دو مختلف صفات کی تخلیق کی انہیں ساتھ ساتھ بھی رکھا لیکن حجاب برقرار رکھا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ الرحمن میں دو سمندروں کی مثال دے کر واضح کرتے ہیں یہ دو سمندر الگ الگ ہیں جو آ پس میں مل نہی سکتے انکی ساخت اور ذائقہ مختلف ہے۔اگر یہ آپس میں ملے تو نقصان کا اندیشہ ہو گا۔اسی طرح اگر مرد اور عورت میں حجاب حائل نہ ہوتا تو معاشرے میں کڑواہٹ اور بے حیائی ہوتی۔
ذرا تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں بے حجابی کا آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ تھا۔مغربی اقوام اسلامی ممالک پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئیں۔مسلمان قوم یورپ کی غلام بن گئیں اور جب انقلاب کی تکمیل ہو چکی مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو ان پر شکست اور غلام قوم میں مرعوبیت اور دہشت زدگی پھیل چکی تھی۔مسلم سوسائٹی کو مغرب معاشرے میں ڈھالنے کی کوششیں عروج پر تھیں۔جس کے نتیجے میں ہمارا طرززندگی۔مغرب لباس۔مغربی معاشرت۔مغربی آداب و اطوار چال ڈھال بول چال سب مغرب زدہ ہو گیا۔مسلمانوں کی تاریخ کا یہ دور انتہائی شرمنہک تھا۔پردے کی بحث چھڑی۔بے حجابی کی ابتدا ء￿ ہوئی نقاب کا مزاق اڑایا جانے لگا اسے خیمہ کفن پوش جنہزہ کہہ کر پکارا گیا۔اور ہم قرآنی احکامات کو پس پشت ڈال کر براداشت کرتے رہے۔اور آج آزاد ہونے کے باوجود مغربی طاقتوں کی سازشوں کا ہدف مسلمان معاشرہ ہے مسلم دنیا کی پاکیزگی دور کرنہ بے حیائی کی دلدل میں دھکیلنہ عورت کو ترقی کے نہم پر بے حجاب کرنہ شیطانی قوتوں کا ہدف ہے اور اب ہم آزاد ہونے کے باوجود اپنی اقداروراوایات اپنی اسلامی معاشرت اپنہ تشخص ہونے کے باوجود غلام ذہنیت اپنائے ہوئے مغرب کی نقالی کو فخر گردانتے ہوئے انہی کی طرززندگی اپنہ کر اپنے آپ کو روشن خیال تصور کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔
4 ستمبر بین الاقوامی حجاب ڈے گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اور مسلم ممالک میں منہیا جاتا ہے جو کہ شہید حجاب مروہ الشربینی کی یاد کو تاز ہ رکھتا ہے۔ امت مسلمہ کویہ شعور دینے کے لئے کہ ہمارا مقصد علامتی حجاب کی ترویج کی بجائے اسلام کے نظام عفت وعصمت سے آگاہی اور معاشرے میں اسلامی تہذیب کی کمزور ہوتی اقدار کو پھر سے زندہ کرنہ ہے۔حجاب امت مسلمہ کا شعار۔فخروامتیاز ہے جو اسلامی معاشرے کو پاکیز گی عطا کرتا ہے۔یہ حجاب مسلمان عرت کے لئے ایک تحفظ ہے۔ایک تکریم ہے جو ہمارے رب نے ہمیں دی وہ عزت وتکریم جو کسی بے حجاب خاتون کو کبھی میسر نہیں آئی آج بھی معاشرے میں باحجاب عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے عوامی مقامات پر کبھی راستہ کبھی بیٹھنے کی جگہ اور اگر قطار میں ہوں تو پیچھے رہ کر عزت دی جاتی ہے۔آج جب کہ دین اجنبی ہو گیا ہے۔بہت بڑی تعداد میں ہماری موجودگی معاشرے میں روح اسلامی کے زندہ رہنے کی علامت ہے۔اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے بھی جان لیں یہ حجاب جواللہ ?نے ہم پر فرض کیا کسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہر گز نہیں۔آج کی باشعور۔باحجاب عورت نے یہ ثابت کر دیا کہ خواہ عورت کشمیر میں آزادی و خود۔مختاری کی جنگ لڑتے ہوئے میدان جنگ میں ہو حجاب کو ترک نہ کیا۔میڈیکل کی تعلیم۔ہاؤس جاب۔ٹیچنگ۔ریسرچ اسکالر اور اسمبلیوں میں بھی اپنے فرائض حجاب میں رہ کر ادا کیے۔
بے حجابی۔بے حیائی کا نکتہ آغاز ہے یہ وہ خرابی ہے جو کبھی اکیلے نہیں آتی مخلوط معاشرے کی تمام تر خباثتیں ساتھ لاتی ہے۔یہ اللہ کے خوف سے کیا گیا مکمل حجاب ہی ان کا سد راہ بن سکتا ہے۔کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے۔ (سورۃ الحزاب)
یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔