کل پاکستان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان(باب یازدہم)

451

 

 

وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس
۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو اجلاس سے پہلے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) حبیب اللہ خان نے اپنی پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی اور اس کے امیر کے بارے میں ایک مخالفانہ بیان دیا اور اپنے بار بار کے چلے ہوئے کارتوسوں کو پھر چلانے کی ناکام کوشش کی۔ مثال کے طورپر: جماعت پر قیام پاکستان کی مخالفت‘ جہاد کشمیر کی مخالفت اور جماعت پر بیرونی طاقتوں سے مالی امداد لینے جیسے الزامات عائد کیے۔ وزیر داخلہ نے پاکستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلانے کا واویلا بھی کیا‘ اور کہا کہ جماعت اپنی تنقیدوں سے انتشار پھیلا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے ۲۴؍ اکتوبر۱۹۶۳ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ان تمام بہتان اور من گھڑت کردار کشی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ: ’’اگر ان کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت ہے تو کسی کھلی عدالت میں پیش کریں اور اگر کوئی ثبوت نہیں ہے تو اس گھٹیا الزام تراشی سے باز رہیں‘ کیونکہ یہ اس ملک کی توہین ہے جس کا وزیر داخلہ ایسی غیر ذمے دارانہ باتیں کرے‘ گزشتہ ماہ ستمبر سے لے کر آج تک اس شہر لاہور میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے جلسے ہوئے‘ ان سب میں انھی مجسٹریٹ صاحب نے لائوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دی۔ مگر صرف جماعت اسلامی کو اجازت دینے سے انکار کرکے کھلی منافقت کا ثبوت دیا گیا۔ جس سے دوہرے معیار کا پتا چلتا ہے اور یہ حکومت کی اخلاقی کج روی کا کھلا ثبوت ہے۔ جماعت کا اجتماع لازماً ہوگا اور ہم ان شاء اللہ لائوڈ اسپیکر کے بغیر بھی یہ کام کرکے دکھائیں گے‘‘۔
افتتاحی اجلاس۔ سرکاری غنڈوں کا حملہ
۲۵؍اکتوبر کو افتتاحی اجلاس میں بیس سے پچیس ہزار کا مجمع تھا۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے افتتاحی اجلاس سے خطاب شروع کیا۔ امیر جماعت نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد بمشکل چند جملے ہی ادا کیے تھے کہ تقریباً ۲۵ مسلح افراد نے پنڈال پر حملہ کردیا۔ یہ غنڈے‘ پستولوں اور خنجروں سے مسلح تھے۔ انہوں نے اجتماع گاہ کے باہر اسٹالوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار شروع کردی۔ ننگی ننگی گالیاں بکنے والے یہ مادرپدر آزاد کرائے کے غنڈے حکومتی سرپرستی میں اجتماع کو درہم برہم کرنے‘ پتھرائو کرنے اور لوٹ مار کے علاوہ آگ لگانے کی وارداتیں کررہے تھے۔ کارکنوں نے آگ پر فوری طور پر قابو پالیا۔ اسی دوران میں ایک حملہ آور نے اجتماع گاہ کے اسٹیج کی جانب رخ کرکے گولی چلادی اور کئی فائر کیے۔ اس میں سے ایک گولی جماعت کے کارکن اللہ بخش کو لگی اور وہ شہید ہوگیا۔ کارکنوں نے ملزم کا پیچھا کیا۔ محمد یوسف خان صاحب نے اس قاتل کو اپنی آہنی گرفت میں لے لیا اور پولیس کے حوالے کردیا‘ لیکن پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔ کارکنوں نے اسے دوبارہ پکڑکر پولیس کے حوالے کردیا۔
غنڈوں کی فائرنگ اور تخریبی کارروائیوں کے دوران میں مولانا مودودیؒ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ کھڑے رہے۔ مجمع بھی کمال نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ کوئی بھگدڑ نہ مچی۔ اسٹیج پر ان کے ساتھ کھڑے چودھری غلام محمد صاحب نے ازراہ احتیاط کہا: ’’مولانا بیٹھ جائیے کہیں گولی نہ لگ جائے‘‘۔ مولانا نے بلند آواز سے یہ تاریخی جملہ ادا کیا:
’’اگر آج میں بھی بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔
اس سانحے کے بعد پہلے اجلاس کی کارروائی ختم کر دی گئی۔ جماعت کے اکابرین اور سید مودودیؒ کے صبر و تحمل اور اللہ بخش مرحوم کی قربانی سے اس سخت ترین آزمائش سے جماعت اسلامی کامیاب اور سرخرو نکلی اور عمدہ تنظیم کا ثبوت دیا نماز ظہر تک اللہ بخش کے لواحقین کے لیے فوری طور پر دس ہزار روپے جمع کرکے دیے گئے اور اللہ بخش کی میت ایک ٹرک کے ذریعے اور ان کے گھر والوں کو ایک کار کے ذریعے ان کے گاؤں گوجرہ ضلع لائلپور (فیصل آباد) بھیج دیا گیا۔
جماعت کے ارکان اور کارکنان کے سیکڑوں وفود لاہور شہر میں گشت کے لیے بھیج دیے گئے‘ جنہوں نے بے شمار افراد سے ملاقاتیں کر کے انہیں حکومتی غنڈہ گردی اور جماعت کے خلاف کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ اس غنڈہ گردی اور اپنے ساتھی کے بہتے ہوئے خون کے منظر سے خائف ہونے کے برخلاف جماعت اسلامی نے اجتماع عام کا پروگرام تین دن تک جاری رکھا۔
(جاری ہے)