عنوان قاری پر چھوڑتے ہیں

289

 

 

چند روز قبل جماعت اسلامی کا یوم تاسیس گزرا ہے، جماعت اسلامی‘ پاکستان کی سیاست اور دینی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔ دائیں بازو کے طبقے میں ہمیشہ اس کے لیے ہمدرد ی رہی ہے اور ابھی بھی ہے، لیکن بہت سے سوالات ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی کے سیاسی وزن سے متعلق ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ جماعت اسلامی ان کے ساتھ ایک پلیٹ فام پر کام کرے‘ مسلم لیگ (ن) میں بھی ایک بڑا طبقہ ہے جس کی یہ شدید خواہش رہی ہے‘ لیکن جماعت اسلامی شاید اب اتحادوں کی سیاست سے عاجز آچکی ہے اور اپنے نشان‘ جھنڈے کے نیچے کام کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی خوبی یہ رہی ہے کہ اس میں قیادت کی تبدیلی وراثت سے نہیں بلکہ اس کے ارکان کی رائے سے ہوتی ہے اس لیے پولٹیکل سائنس کی رو سے اسے ایک مکمل سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے۔
اگر جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے موقع پر جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو موضوع بھر پور بحث کا متقاضی ہے اسے آرٹیکل کے ذریعے سمیٹنا ممکن نہیں ہے پاکستان کے آئین کی تشکیل سے لے کر ملک میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی جدوجہد کے لیے جماعت اسلامی کا بڑا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کے وقت نوجوان نسل اور پڑھے لکھے طبقے کو مخاطب کیا اور انہی کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے‘ اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں سید منور حسن‘ پروفیسر خورشید احمد‘ قاضی حسین احمد‘ لیاقت بلوچ‘ احسن اقبال جیسے نام سید مودودی کی فکر نے پیدا کیے‘ تعلیمی اداروں میں سبز ہے سبز ہے ایشاء سبز کے نعرے گونجتے رہے تو اس کی وجہ بھی مولانا مودودی تھے۔ جماعت اسلامی نے اب پختہ سوچ اپنا لی ہے۔ چونکہ اتحادی سیاست نے نقصان پہنچایا لہٰذا اب وہ اپنی نظریاتی فکر آگے بڑھائے گی‘ اس نظریاتی فکر کی اصل بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب قیام پاکستان سے قبل برعظیم کے مسلمانوں کو اپنے ملّی تشخص کے حوالے سے شدید کش مکش کا سامنا تھا سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، مذہبی، اخلاقی، ثقافتی، ہر حیثیت سے غلام بنانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور جدوجہد کی ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اور سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہاد اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں اس خطہ میں مسلمانوں کی حالت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی جو مغربی فکر سے مغلوب ہوچکی تھی لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں نے اس راستے کو اختیار نہیں کیا تھا اس کے لیے معاشرے میں ایک کش مکش جاری تھی۔ ایک گروہ ماضی کی تقلید کا ہامی تھا وقت آگے بڑھا تو برعظیم کے سیاسی حالات نے ایک نیا رُخ اختیار کرلیا نئی تحریکیں اُبھر کر سامنے آئیں جس کے بعد یہاں سیاست کا انداز بدلنے لگا اور جمہوری طریقے فروغ پانے لگے انگریز سے نجات اور آزادی کی تحریک بھی آگے بڑھ رہی تھی ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کا بھی چرچا تھا اور مسلمانوں کو اپنی انفرادیت کے لیے مسلم قومیت کا مسئلہ بھی درپیش تھا جمہوری طریقے پر انتخابات کے نتیجے میں اکثریت کی وجہ سے نظام پر ہندو غلبہ تھا۔ مسلمان اپنے ملّی تشخص اور تہذیب و تمدن کا تحفظ بھی چاہتے تھے مگر ان کو کوئی راہ اور سیاسی روشنی نہیں دکھائی دے رہی تھی اور یہ بھی المیہ تھا کہ ایسی قیادت بھی سامنے نہیں تھی جو صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے سیاسی طور پر قیادت کرنے والا گروہ اسلام کے تصور اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں سے نابلد تھا اور مغربی اور جمہوری انداز میں مسائل کا حل چاہتا تھا بلاشبہ علما کرام ماضی میں ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے تھے مگر وہ نئے حالات اور جدید تقاضوں سے ناواقف تھے یہیں سے ایک تبدیلی پھوٹی‘ ایک نیا انقلاب تھا جو ہر صاحبِ فہم کو بصیرت کی آنکھوں سے اُمڈتا ہوا نظر آرہا تھا۔ مسلمانوں کو صحیح خطوط پر رہنمائی کی اشد ضرورت تھی مگر صحیح فکر اور درست سمت میں رہنمائی کے لیے قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان ایک مخمصے کا شکار تھے۔ ان حالات میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے احیائے اسلام اور ملت اسلامیہ کی صحیح سمت میں فکری رہنمائی اور جدوجہد کے لیے صحافت کے میدان کو منتخب کیا اور ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ شائع کیا جس سے اس تحریک کو آگے بڑھایا وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تحریک بنتی چلی گئی کہ جس نے ایک عہد کی تعمیر کا سامان مہیا کردیا اور ملّت اسلامیہ کی بیداری میں منفرد کردار ادا کیا اور عصرِجدید کے تقاضوں کے مطابق مسائل زندگی کا حل بھی پیش کیا۔
قلم کے ذریعے پرپا کی جانے والی فکر کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کرنے کے لیے جماعت اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا یوں کہہ لیں کہ مولانا مودودیؒ نے حساس ذہنوں اور دردمند دلوں کو احیائے اسلام کے لیے تیار کیا اور عملاً ایک تحریک برپا کر دی۔ جماعت اسلامی انھی مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے، جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ ساری طاقت کو سمیٹ کر نیکی پھیلانے اور بُرائی مٹانے میں صرف کیا جائے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ اعزاز کہ جماعت اسلامی ہمیشہ اپنی اجتماعی طاقت سے عوام اور اقتدار کو غلط راستوں پر جانے سے روکنے کی کوشش کرتی رہی ہے‘ آئین سازی کے لیے ملک میں مضبوط پارلیمانی نظام اور جمہوریت کے استحکام کے لیے جو کچھ بھی ہوسکا، کیا گیا عامتہ الناس کے لیے جو پیغام دیا گیا اسے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ’’اگر کوئی مسلمان بھلائی کا فروغ اور بُرائی کا سدباب چاہتا ہے تو اسے اپنے آپ کو پوری طرح نظم جماعت کے حوالے کر دینا ہوگا‘‘۔ پاکستان بھر میں جماعت اسلامی میں شامل ایسے افراد کی تعداد غالبا چالیس ہزار ہوگی یہی لوگ جماعت اسلامی کی اصل پہچان ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ چالیس ہزار افراد ملک میں کیسے انقلاب لاسکتے ہیں‘ جب کہ ملک میں تبدیلی کا ذریعہ بھی ووٹ ہے جماعت اسلامی یہ کام کر سکتی ہے اگر وہ اپنے بے نظیر ماضی کو دیکھے اور حقیقی معنوں میں جائزہ لے۔ ۱۹۷۰ء کے بعد اکتالیس سال کے طویل وقفے کے بعد جماعت اسلامی نے اپنے جھنڈے اور نشان پر ۲۰۱۳ء میں انتخاب لڑا‘ اس کے بعد پھر اتحاد کی سیاست کی جانب نکل گئی‘ اب پھر اپنے جھنڈے اور نشان کی جانب لوٹ آئی ہے پاکستان کی سیاست میں آج کل ایک ایسی تیزی آچکی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے کارکن اپنے حق میں فوری نتائج چاہتے ہیں‘ نتائج نہ ملیں تو ان کی جدوجہد ایک حد کے بعد مایوسی کی نذر ہوجاتی ہے ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے جماعت اسلامی کو پائیدار سیاسی حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی جس میں‘ انصاف‘ عدل‘ سوشل جسٹس‘ روزگار اور تعلیم کی فراہمی‘ لوگوں کے عزت نفس کے مکمل تحفظ اور پاکستان کو اندرونی اور بیرونی جارحیت سے بچانے محفوظ رکھنے کے لیے قابل عمل ٹھوس منشور دینا ہوگا‘ گلی محلے کے بنیادی مسائل سمجھے بغیر کوئی سیاسی جماعت بھی عوام میں مقبول نہیں ہوسکتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت اسلامی کو قومی ایشوز پر‘ ملکی دفاع کے لیے اہم ترین حساس ایشوز سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنی حکمت عملی بیان کرنا ہوگی۔