بیک وقت چین متعدد محاذ پر

657

 

محمد ابوبکر

موجودہ حالت میں واضح طو پر چین عالمی سطح پر خبروں کی زینت بنا نظرآ رہا ہے خاص طور پر چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں تیزی آئی ہے اور اس دوران میں چین امریکا سے 75 ارب ڈالر کی درآمدی اشیا پر دس فی صد ڈیوٹی لاگو کرنے جا رہا ہے ان اشیا میں زرعی اجناس، خام تیل اور چھوٹے طیارے بھی شامل ہیں۔ ویسے تو یہ اقدام صدر ٹرمپ کی طرف سے چین سے درآمد کی گئی تین سو ارب مالیت کی اشیا پر دس فی صد ٹیکس عائد کرنے کے رد عمل میں نظر آتا ہے، یاد رہے کہ چین کی طرف سے نئے محصولات پانچ سے دس فی صد تک کے درمیان ہوں گے اور یہ امریکا سے درآمد کی جانے والے پانچ ہزار اشیا پر لگائی جائیں گی۔
دوسری جانب امریکی حکومت نے تائیوان کے ساتھ آٹھ ارب ڈالر کے معاہدے کی منظوری دی ہے جس میں 66 جنگی طیارے شامل ہیں یہ کئی دہائیوں میں سب سے بڑا معاہدہ ہے، اس معاہدے کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت ہو رہا ہے جب چین اور امریکا کے درمیان پہلے ہی تجارتی جنگ عروج پر ہے، یہاں تک کہ چین نے دھمکی دی ہے کہ اگر واشنگٹن نے تائیوان کے ساتھ جنگی جہاز کی فروخت کا معاہدہ کیا تو وہ ان تمام کمپنیوں پر اقتصادی پابندیاں لگا دے گا جو تائیوان کے ساتھ ایف 16 کی فروخت میں شامل ہیں یاد رہے کہ چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے جسے بقول چین اس کے ساتھ مل جانا چاہیے، میرے خیال میں اس معاملے پر چین طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ جبکہ وزیرِ خارجہ گنگ شوانگ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ فروخت بین الاقوامی قوانین، بین الاقوامی تعلقات اور ’ون چائنا‘ پالیسی کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت امریکا یہ تسلیم کرتا ہے کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور اس کے باقاعدہ تعلقات تائیوان سے نہیں صرف چین سے ہونے چاہئیں۔
امریکا چین کشیدگی پر بات یہاں ختم ہوتی۔ گزشتہ ہفتے 2008 کے بعد سے پہلی مرتبہ ڈالر سات چینی یوان کی سطح پر آ گیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے چین پر اپنی کرنسی میں رد و بدل کرنے کا الزام عائد کیا یعنی امریکا نے سرکاری طور پر چین کو ’کرنسی میں رد و بدل‘ کرنے والا ملک تک قرار دے دیا ہے اس بیان بازی کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھ سکتا ہے تاہم امریکا کے محکمہ خزانے کے اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں چینی یوان کی قدر میں تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی، چینی کرنسی یوان کی قدر میں گراوٹ کے لیے عالمی مارکیٹ تیار نہیں تھی کیونکہ چین عموماً اپنی کرنسی کو سہارا دینے کے لیے اقدامات کرتا ہے، خبریں یہ بھی ہیں کہ امریکی حکومت کا کہنا تھا کہ اب وزیر خزانہ سٹیون منوچن عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کریں گے تاکہ ’چین کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر منصفانہ مسابقتی فائدہ کو ختم کیا جاسکے۔
گزشتہ ماہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی جنگ پر معاملات طے کرنے کے لیے امریکا اور چین کے سرکردہ حکام نے چین میں مذاکرات کا تازہ ترین دور چین میں مکمل ہوا جس میں اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے حوالے سے مذاکرات کا اگلا دور ستمبر میں امریکا میں ہو گا تازہ ترین بات چیت کے بعد چین کی وزارت تجارت نے مذاکرات کے اس دور کو ’نہایت مفید، کارآمد اور تعمیری‘ قرار دیا ہے، جبکہ زمینی حقائق یہ نظر آئے کہ ان مذاکرات سے توقعات کچھ زیادہ نہیں۔
ہاں مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالیہ پیش رفت پر روشنی ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ چین اس محاذ پر بھی خبروں میں رہا، چین اور بھارت کا لداخ میں سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور اس بارے میں دونوں حکومتوں کے درمیان اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی لیکن اس کے برعکس بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر چین نے بھی اعتراض اٹھایا ہے جس کو انڈیا نے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر رد کر دیا ہے، یعنی صرف چند دنوں میں بین الاقوامی سطح پر چین بیک وقت متعدد محاذ پر کھڑا نظر آیا۔ اور آگے بھی چیلنجز بڑے ہیں۔