شہریت کی جانچ پڑتال کے پس پردہ شرمناک بھارتی ایجنڈا

351

سابق چیف آف آرمی اسٹاف

مقبوضہ کشمیر اور آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد ہندو آبادی کا تناسب زیادہ کرکے انہیں ہندو اکثریتی علاقوں میں تبدیل کرنا ہے۔ کشمیریوں کو ڈر ہے کہ حکومتی منصوبہ روبہ عمل ہونے سے کشمیریوں کی خودمختاری چھن جائے گی اور ہندؤوں کو یہاں لاکر بسانے سے کشمیر کی اکلوتی مسلم ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ان تبدیلیوں سے کشمیری اس خصوصی حق سے بھی محروم کر دیے جائیں گے جس کے تحت کوئی غیر کشمیری یہاں پر جائداد نہیں خرید سکتا۔ مودی کا یہ ایجنڈاچند صدیاں پہلے امریکا میں اٹھائے جانے والے اقدامات جیسا ہے جہاں ریڈ انڈین باشندوں کو آبادی سے علیحدہ کر کے مخصوص علاقوں میں رکھاگیا تھا‘ جہاں وہ ابھی تک محدود ہیں۔
امریکی اور بھارتی محققین جیفری جیٹلمین Geffrey Gettleman اور ہری کمار (Hari Kumar) نے اس منصوبے پر گہری تحقیق کی ہے۔ ان کا مضمون “India Plans Big Detention Camps for Migrants. Muslims are Afraid” کے عنوان سے 17اگست 2019ء کے روزنامہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
ا۔ ’’آسام میں بسنے والے چار ملین سے زیادہ لوگوں کو جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ اس بات کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ انہیں کسی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے آنے والا قرار نہ دے دیا جائے کیوںکہ حکومت کی جانب سے جاری کیا جانے والا ہندو ذہنیت پر مبنی ایجنڈا روبہ عمل ہے جس کے سبب ملک کی کثیرالقومی روایات اور نظریات کو نئی شکل دے دی گئی ہے۔ حالاںکہ بہت سے لوگ جن کی شہریت پر سوالیہ نشان ہے‘ بھارت ہی میں پیدا ہوئے تھے اور اب تک تمام شہری حقوق سے استفادہ کرتے رہے ہیں‘‘۔
ب۔ ’’وزیراعظم نریندرا مودی کی حکومت اس مہم کی آڑ میں لوگوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ تسلیم کرلیں کہ وہ بھارت کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اسی ہندو ذہنیت کی سوچ کا حصہ ہے جو مئی کے انتخابات کے پیچھے کار فرما تھی۔ اس وقت بھارت کے مسلم اقلیت کے افراد شدید خطرہ محسوس کر رہے ہیں‘‘۔
ج۔ ’’آسام میں شہریتی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح بنگلا دیش سے ہجرت کرکے آنے والوں کا پتا چلایا جا سکے گا۔ بھارت کے طاقتور وزیر امیت شاہ نے متعدد بار ایسے مہاجرین کو ’’دیمک‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔ اس لیے آسام کے 33ملین باشندوں کو دستاویزی شہادتوں کے ذریعے یہ بات ثابت کرنا ہوگی کہ وہ اور ان کے آباؤ اجداد 1971 سے پہلے سے یہاں کے باشندے ہیں یا نہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مودی حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک بل پاس کرانے کی بھی کوشش کی ہے جس میں ہندؤوں‘ بدھسٹوں‘ عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس عمل سے بری قرار دیا جائے گا۔ صرف مسلمانوں ہی کو اس پل صراط سے گزرنا ہوگا‘‘۔
د۔ ’’اس عمل سے مسلمانوں کے دلوں میں سخت اضطراب ہے کیوںکہ ایک ہزار میل کی دوری پر واقع بھارت کی اکلوتی مسلمان اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو دو ہفتے پہلے ہی مودی حکومت نے لپیٹ دیا ہے جس سے مسلمانوں کو حاصل خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے اور مقامی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اسے وفاق میں شامل کر لیا گیا ہے۔ مقامی قائدین کی اکثریت قید کی جاچکی ہے۔ اس طرح کشمیر میں ہندو قوم پرستی پر مبنی ایجنڈا اندھی طاقت کے بل بوتے پر نافذ کر دیا گیا ہے جو ’ہندوتوا‘ کے انتہا پسند نظریات کا آئینہ دار ہے‘‘۔
ر۔ ’’بھارتی ہندؤوں کی اکثریت کو مودی کی قوم پرستانہ سیاست پر فخر ہے اور وہ دنیا بھر میں بھارت کی برتری کا تاثر اجاگر کرنے جیسے اقدامات سے خوش ہیں۔ براؤن یونیورسٹی (Brown University) میں جنوبی ایشیا کے پروگرام کے سربراہ Ashutosh Varshney کہتے ہیں کہ ’’اس ایجنڈے کے تحت صرف مسلمان ہی دشمن ہیں‘ اور یہ عمل بھارتی آئین کے ساتھ کھلی جنگ کے مترادف ہے۔ اگر اس کے تدارک کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بھارت ایک ہندو قوم پرست ملک بن جائے گا‘‘۔
اگر اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی رہی تو اس سے صورت حال زیادہ گمبھیر ہو جائے گی اور نئے زمینی حقائق رونما ہوں گے جو تمام معاملات کو اپنے جبر میں لے لیں گے مثلاً:
ایک۔ وزیراعظم مودی نے جس ایجنڈے کے مطابق چال چلی ہے اس سے واپسی ممکن نہیں ہے کیوںکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ لہٰذا اس ظلم و ستم کا بازار گرم رہے گا۔
دو۔ کشمیریوں کی پرامن تحریک آزادی اب ایک ابلتے ہوئے لاوے کی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں دس لاکھ بھارتی افواج حالات کو سنبھالنے میں ناکام ہیں۔ اب یہ تحریک ایسے طوفان کا روپ دھار چکی ہے جو اپنی راہوں کا تعین خود کرے گی۔ کشمیری ہی اس تحریک کی قیادت کریں گے۔
تین۔ پاکستان کشمیر کی تحریک آزادی کو ہر ممکن مدد مہیا کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہے‘ خواہ جنگ کرنے پر مجبور ہو اور یہ جنگ ایٹمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
چار۔ مودی کے ایجنڈے پر عمل درآمد سے موجودہ صورت حال دنیا بھر کے جہادیوں کو دعوت عام دے رہی ہے۔ اس لیے کہ کفر نے اسلام کو للکارا ہے۔ ان چیلنجوں کے جواب میں عالمی جہادی کشمیر کا رخ کریں گے۔ افغانستان کی طرح بالآخرکل یہی جہادی کشمیر کی باگ ڈور سنبھال لیں گے اور انہی کے سامنے بھارتی قیادت صلح کی بھیک مانگ رہی ہوگی جیسے کہ آج امریکا افغان طالبان کے آگے سجدہ ریز ہے۔ اگر انقلابی ایران اور جہادی افغانستان کے جہادی بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے تو پورے برصغیر میں آگ لگ جائے گی اور ایسی تباہی آئے گی جو 262 قبل مسیح میں لڑی جانے والی کلنگا کی جنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہوگی جو دریائے گنگا کے میدانوں میں لڑی گئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اس تباہی سے بچنے کا کوئی حل بھی ہے؟ اس کا حل پاکستان اور بھارت کی روشن دماغ قیادت کے پاس ہے اگر وہ حقائق کا ادراک کریں اور اپنی منزل کے حصول کے لیے قدرت کے نظام عدل سے رہنمائی حاصل کریں۔ ایسا نظام عمل جو امن و آشتی کا پیغام ہو۔