کھسیانی کابل انتظامیہ

677

کابل حکومت کے سربراہ اشرف غنی اور ا ن کے خوشہ چینوں کے ملک کے اندر اور باہر ڈھونگ رچانے سے افغانستان کی محکومیت آزادی اور خودمختاری بدلے گی نہیں۔ یہ قوم کو فریب میں ڈالنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت دنیا پر اور خود ان پر بھی عیاں ہے کہ ملک مقبوضہ ہے۔ ان کی فرماں برداری جاہ، منصب اور مراعات کے لیے ہے۔ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو مذہب کی عناد میں سامراج واستکبار کی غلامی پر آمادہ ہیں۔ ملک آزاد ہوتا اور اشرف غنی کی حکومت خود مختار ہوتی تو امریکا طالبان سے مذاکرات کرتا؟۔ اگر ایسا نہیں تو اشرف غنی امریکا کو اپنی اوقات میں رہنے اور کابل حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کا کیوں نہیں کہتے۔ یقینا یہ تعلق حاکم اور محکوم ہی کا ہے۔ بڑے اچھے لوگ ہیں یہ سیاست دان بھی جنہوں نے ملک میں امریکا کی موجودگی اور قبضہ کو اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا نام دے رکھا ہے۔ اللہ انہیں جذبہ حب الوطنی اور خُوئے غیرت سے نوازے۔ ظاہر ہے امریکا حاکم اور قابض کی حیثیت سے مذاکرات کررہا ہے۔ ان کے مد مقابل فریق طالبان ہیں۔ اور طالبان ہی سے تاریخ کے بد ترین حملے اور بمباری کے بعد حکومت ہتھیا لی گئی تھی۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات مسلسل التواء کے شکار ہیں۔ امریکا نہیں چاہتا کہ مذاکرات کے اختتام سے قبل یہ انتخابات ہوں۔ اشرف غنی با اختیار ہیں تو انتخابات کراکے دکھائیں۔ کابل میں تعینات امریکا کے سفیر جان باس نے حال ہی میں کہا کہ ان کے لیے صدارتی انتخابات سے قبل مذاکرات اہمیت رکھتے ہیں۔ اور اشرف غنی ہیں کہ کہتے پھر رہے ہیں کہ افغان عوام فیصلہ کریں کہ انہیں جمہوریت چاہیے یا طالبان کی حکومت۔ حالاں کہ طالبان کا سردست ایسا کوئی مؤقف سامنے آیا ہی نہیں کہ جس میں انہوں نے مطلق اپنی حکومت کے قیام کا دعویٰ کیا ہو۔ ان کی جدو جہد غیر ملکی انخلا کے لیے ہو رہی ہے۔ اس ذیل میں اشرف غنی جیسوں کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ان کی موجودگی امریکا کے محض ایک اشارے کی محتاج ہے۔ وہ حکم دیں تو اگلے لمحے کوئی کابل میں دکھائی نہ دے گا۔ جیسے شاہ ایران رضا خان پہلوی کے ساتھ برطانیہ نے کیا۔ اس کے باوجود کہ اُن کی حیثیت اشرف غنی جیسی نہ تھی۔ امریکا اور برطانیہ کو لگا کہ شاہ کی جرمنی سے محبت بڑھ رہی۔ اگست1941میں روسی اور برطانوی فوجیں تہران پہنچ گئیں۔ خلوت میں شاہ کو اقتدار اپنے نوجوان بیٹے محمد رضا پہلوی کو دینے کا حکم دیا۔ فوری تعمیل کے بعد شاہ جوہانسبرگ بھیجے گئے، جہاں تین سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ افغانستان کے کمیونسٹ صدر حفیظ اللہ امین کی مثال تو گھر ہی کی ہے۔ جو روسیوں کے مزاج کے خلاف گئے۔ تو سُرخ فوج نے کابل کے قصر دارالامان پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا۔ صدر اور روسی فوج کے درمیان تین گھنٹے جنگ ہوئی۔ حفیظ اللہ امین بیٹے سمیت قتل ہوا، افغان فورسز کی ایک بڑی تعداد ماری گئی۔ اس خون آشامی کی تمام تفصیلات دبا دی گئیں۔ امین کی لاش غائب کردی گئی۔ دارالامان چھلنی چھلنی کر دیا گیا۔ یعنی اشرف غنی محض نمونے کے طور پر اقتدار کے منصب پر بٹھائے گئے ہیں۔
طالبان اگر کسی مرحلہ پر بات چیت کی میز پر بیٹھیں گے تو یہ غنیوں کے لیے عزت کی بات ہوگی۔ دیکھا جائے تو یہ مسائل ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ پاکستان تو طالبان حکومت کے خاتمے میں پہلی صف پر کھڑا تھا۔ یہاں کے ہوائی اڈوں سے ہزاروں حملے ہوئے۔ آبادیاں ملیا میٹ ہوئیں۔ ہزاروں افغان شہری تہ تیغ کردیے گئے۔ یہیں سے طالبان مخالف لشکر تیار ہوئے۔ یہیں سے کمانڈر عبدالحق، حامدکرزئی روانہ کر دیے گئے۔ سفارتی استثنا سامراجی بوٹوں تلے روندتے ہوئے پاکستان میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اپنی رہائش گاہ سے گھسیٹتے، زدوکوب کرتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے بدنام زمانہ سامراجی عقوبت خانے گوانتا ناموبے پہنچا دیے گئے۔ اور پھر پاکستان دودھ سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔ افغانستان کی بساط پر بھارت کُھل کھیلنے لگا۔ پھر کیا ہوا کے بھارت، کابل حکومت اور اس کے جاسوسی کے اداروں نے پاکستان کے خلاف تخریب میں پہل کردی۔ کہ پشتون تو اپنے ہی ہیں، بلوچ نوجوانوں کو بھی چوٹ لگانے پر آمادہ کیا۔ اب جبکہ ان کا وقت تمام ہونے کو ہے، تو ان احمقوں نے پشتون نوجوانوں کے اندر بھی انتہا پسند خیالات اُبھارے، مگر ان کا یہ وار بھی خطا گیا۔
پاکستان کو پرویز مشرف رجیم کی خیانت اور زیاتیوں کی سزا ملی۔ جو طالبان اور بے گناہ افغانوں کے قتل عام میں شریک تھا۔ واشنگٹن کی شکستگی، سبکی کی وجہ بھارت کابل انتظامیہ اور این ڈی ایس بنی۔ چناںچہ ڈولتی کشتی کے باوجود کھسیانی کابل انتظامیہ مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئی۔ 6اگست 2019ء کو امارت اسلامیہ افغانستان کے سربراہ مولوی ہبۃ اللہ اخوندزادہ کے چھوٹے بھائی حافظ احمد اللہ اخوندزادہ کو قتل کرایا۔ وہ کو ئٹہ کی نواح کچلاک کے مقام پر کلی قاسم خان کی جامع مسجد میں خطیب تھے۔ جمعہ کی نماز سے قبل تقریر کے دوران بم دھماکہ ہوا۔ ٹائم بم پہلے سے مسجد کی محراب میں نصب کیا گیا تھا۔ اس مسجد میں ہبتہ اللہ اخوندزادہ بھی خطیب رہے۔ گویا اشرف غنی حکومت کے جاسوسی ادارے دانستہ امن بات چیت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی اس طرح کی حرکتوں سے پاکستان کے اندر رہائش پزیر کابل حکومت سے وابستہ لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ نہ ان اوچھی حر کتوں سے طالبان تحریک پر اثر پڑنے والا ہے۔ حافظ احمد اللہ اخوندزادہ کا خاندان یقینی طور پر افغانستان کے اندر سیاست میں واضح کردار رکھتا ہے۔ مولوی ہبتہ اللہ اخوند زادہ افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ دنیا کے ہاں اس تحریک کی حیثیت مسلمہ بن چکی ہے۔ اس روشن حقیقت کو مانتے ہوئے انہیں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سیاسی دفتر کھولنے کی تجویز دی گئی تھی جو طالبان کے امیر ملاّ محمد عمر مجاہد نے قبول کرلی تھی۔ کئی سال سے یہ دفتر سیاسی لحاظ سے فعال ہے۔ سیاسی دفتر کے نمائندوں اور امریکا کے مابین مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔ ماسکو، انڈونیشیا، چین، جاپان اور وسطی ایشیا کے ممالک میں افغان مسئلے پر دورے اور وہاں حکومتی اعلیٰ عہدیداروں سے طالبان رہنمائوں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ماسکو اور دوحہ میں افغانستان کے سیاسی نمائندوں سے بھی ملاقات و مذاکراتی نشستیں کرچکے ہیں۔ ملاّ محمد عمر مجاہد کے بعد امارت کی ذمے داری ملا اختر منصور کو سونپی گئی۔ وہ بڑے متحرک امیر تھے، کئی اہم بیرونی دورے کرچکے تھے۔ 21 مئی2016 ء کو مبینہ طور پر ایران سے آتے ہوئے وہ بلوچستان کے ضلع نوشکی کے مقام احمد وال کے قریب امریکی ڈرون کا نشانہ بن گئے۔ ان کا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ صحیح سالم منظرعام پر آئے جبکہ گاڑی کا بلوچ ڈرائیور اور ملاّ اختر منصور بھسم ہوگئے تھے۔ قطر دفتر فعال تھا، پھر ملاّ اختر منصورکا مارا جانا سمجھ سے بالاتر ہے، اور وہ بھی پاکستان کی انتہائی حدود کے اندر۔ بہرحال آنے والا وقت اس راز کو فاش کردے گا۔
بلوچستان کے پشتون اضلاع بشمول کوئٹہ میں چند سال قبل طالبان دورِ حکومت کے اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔ یہ عمل افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور پاک افغان سرحدی علاقے کے کمانڈروں کے اشتراک سے شروع کیا گیا تھا۔ کئی افراد قتل ہوئے۔ اس نیٹ ورک پر پاکستان کے خفیہ اداروں نے بہت جلد قابو پالیا۔ گرفتار ٹارگٹ کلرز کی انکشافی ویڈیوز منظر عام پر لائی گئیں، کئی مارے گئے، ان کے پاکستان میں سہولت کاروں اور ان مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن کے سرحد کے اْس پار افغان حکومت کے کمانڈروں سے میل ملاپ اور روابط تھے۔ حافظ احمد اللہ کا قتل انہی واقعات کی کڑی ہے۔ ناسمجھ افغان حکومت کو ہوش سے کام لینا چاہیے۔ اْسے یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اْس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ امریکی افواج کے نکلنے کے بعد یہ حکومت اور اس کی فورسز اور خفیہ ادارے اپنے بھارتی آقائوں سمیت ایک منٹ بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ ضروری ہے کہ کابل حکومت قابض ممالک سے غیر اعلانیہ ہی سہی، عدم تعاون شروع کرے۔ امارتِ اسلامیہ کی جنگ غیر ملکی افواج کے ساتھ ہے۔ کابل انتظامیہ کی فورسز ان خارجی افواج سے تعاون اور ان کے مفادات کے تحفظ کے نتیجے میں نشانہ بن رہی ہیں۔ افغان حکومت اپنے کمزور وقتی مقاصد کے لیے وارداتیں کراکر اگر سمجھتی ہے کہ وہ امن عمل کو متاثر اور امریکی قبضے کے تحت اپنی حکمرانی کو دوام دے پائے گی تو یہ ان کی بھول اور ناسمجھی ہے۔ وقتی مقاصد کے لیے چھوٹے گروہ بنانا اور ان کی سرپرستی افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغانستان کے مفاد میں یہ ہے کہ کابل انتظامیہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے امن کی راہ کشادہ کرنے میں کردار ادا کرے۔