محبت سے اولاد کی تربیت

1053

ڈاکٹر سمیر یونس
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انہیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے بلکہ محبت کی چاہت و حاجت خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔
بوسہ شفقت:
رسول رحمت ﷺ ایک بار اپنے نواسوں حضرات حسن اور حسین کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا کیا آپ ﷺ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے 10 بچے ہیں۔ اللہ کی قسم میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا:
اللہ نے اگر تمہارے دل سے اپنی رحمت سلب کر لی ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر حمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انہیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دور ہٹیں گے۔ نفرت و بیزاری اور سنگدلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ والدین کے بوسہ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کر سکتے ہیں اور انہیں محبت و الفت رضا مندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کر سکتے ہیں۔
محبت بھری مسکراہٹ:
اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انہیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوشگوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔
والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیے۔ ایک بار مسکرایے اور پھر آئینے میں دیکھنے۔ ایک بار ترش رو ہو کر آ ئینے میں دیکھئے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں برداری کرتے ہیں۔
رسول اکرمﷺ کا اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ جو طرز عمل ہوتا تھا۔ اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہﷺ نے یوں کی ہے:
رسول اللہ ﷺ سب سے بڑھ کر نرم دل مسکرانے اور ہنسنے والے تھے۔
حضرت ابوذر غفاری سے مروی رسول ﷺ کا ارشاد ہے تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)