زندگی کا اسلامی تصور

1287

سید ابو الاعلیٰ مودودی
کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی

دنیا میں جتنی چیزیں انسن کے زیرِ تصرف اور زیرِ حکم ہیں حتیٰ کہ خود اس کا نفس بھی اس کی ملک نہیں ہے ۔ اصلی مالک اور حاکم اور فرماں روا خدا ہے ۔ انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرف کرے اور من مانے طریقوں سے ان کو استعمال کرے ۔ اس کی حیثیت دنیا میں صرف نائب کی ہے اور اس کے اختیار کی حد بس اتنی ہے کہ خدا کی ہدایت پر چلے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان چیزوں میں تصرف کرے ۔
اس حد سے تجاوز کر کے اپنے نفس کی پیروی کرنا یا فرماں روائے حقیقی کے سوا کسی اور فرماں روا کی پیروی کرنا بغاوت اور گمراہی ہے ۔
دنیا میں کامیابی کی اولین شرط
کہا گیا کہ
’’ اور جولوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ سے کفر کیا ، وہی در اصل نقصان میں ہیں ۔ ‘‘
’’ تم میں سے جو کوئی اپنے دین یعنی خدا کی اطاعت سے پھر گیا اور اس حال میں مرا کہ وہ کافر تھا تو ایسے تمام لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے ۔ ‘‘
’’ اور جو کوئی ایمان لانے سے انکار کرے اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں نقصان ا ٹھانے والوںمیں سے ہے ۔ ‘‘
( المائدہ :۵)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نائب خدا ہونے کی حیثیت سے دنیوی زندگی میں انسان کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی فرماں روائی تسلیم کرے ۔ اور دنیا میں جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ میں خدا کا نائب اور اس کا امین ہوں ۔ اس حیثیت کو تسلیم کیے بغیر خدا کی ملکیت میں وہ جس قدر تصرف کرے گا وہ محض باغیانہ تصرف ہو گا اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ باغی اگر کسی ملک پر متصرف ہو کر بہتر کار گزاری بھی دکھائے تب بھی ملک کی اصلی حکومت اس کے حسن عمل کو تسلیم نہ کرے گی ۔ بادشاہ کی نگاہ میں باغی بہر حال باغی ہو گا ، خواہ اس کی ذاتی سیرت اچھی ہو یا بری ، خواہ بغاوت کر کے اس نے ملک میں اچھی طرح تصرف کیا ہویا بری طرح ۔
دنیا برتنے کے لیے ہے
’’ اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاک ہے اس میں سے کھائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ وہ تو تمہیں دی اور بے حیائی کا اور خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے کا حکم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے ۔‘‘
( البقرہ :۱۶۸۔۱۶۹)
’’ کہو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کیا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور کس نے پاک رزق کو حرام کر دیا ہے؟‘‘
’’ ہمارا پیغمبر ان کو نیکی کا حکم کرتا اور بدی سے روکتا ہے ۔ اور ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے بوجھ اور ان بندشوں کو دور کرتا ہے جو ان پر تھیں
’’ تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے رب کا فضل( یعنی کاروبار کے ذریعے سے روزی) تلاش کرو۔‘‘
(البقرہ:۱۹۸)
’’ اور رہبانیت کا طریقہ جو مسیح کے پیروئوں نے خود نکال لیا تھا ۔ یہ انہوں نے محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا ، وہ ہم نے ان پر نہیں لکھا تھا ۔‘‘
(الحدیث۲۷)
’’ ہم نے جہنم کے لیے بہتیرے جن اور انسان پیدا کیے ہیں ۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے سمجھتے نہیں اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں ۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے یہ لوگ غفلت میں ہیں ۔ ‘‘
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان کا کام دنیا کو چھوڑ دینانہیں ہے ،نہ دنیا کوئی ایسی چیز ہے کہ اس سے پرہیز اور حذر کیا جائے ، اس سے دور بھاگا جائے ۔ اس کے کاروبار ، اس کے معاملات ، اس کی نعمتوں اور اس کی لذتوں اورزینتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا جائے ۔ یہ دنیا انسان ہی کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ اس کو برتے اور خوب برتے ۔ مگر برے اور بھلے ، پاک اور ناپاک ، مناسب اور نا مناسب کے فرق کو ملحوظ رکھ کر برتے ۔ خدا نے اس کو آنکھیں دی ہیں اس لیے کہ وہ ان سے دیکھے ۔ کان دیے ہیں کہ ان سے سنے ۔ عقل دی ہے کہ اس سے کام لے ۔ اگر وہ اپنے حواس ، اپنے اعضاء اور اپنے قوائے ذہنی کو استعمال نہ کرے ، یا استعمال کرے مگر غلط طریقے سے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔
اعمال کی ذمہ داری اور جواب دہی
پھر کہا گیا
’’ فیصلہ کی گھڑی جس کو ہم چھپانے کا ارادہ رکھتے ہیں آنے والی ہے تاکہ ہر نفس کو اس کی سعی کے مطابق بدلہ ملے ۔ ‘‘
’’ کیا تم کو تمہارے عملوں کے سوا کسی اور چیز کے لحاظ سے جزا دی جائے گی؟‘‘
’’ اور یہ کہ انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ، پھر اس کو پورا پورا بدلہ ملے گا اور یہ کہ آخر کار سب کو تیرے پروردگار کے پاس پہنچنا ہے ۔ ‘‘
’’ جو اس دنیا میں اندھا تھا ، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور وہ راہِ راست سے بہتر ہٹا ہوا ہے ۔ ‘‘
’’ تم اپنے لیے جو نیکیاں اس دنیا سے بھیجو گے انہیں اللہ کے ہاں پائو گے تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے ۔‘’
’’’ اس دن اعمال کا تو لا جانا بر حق ہے ۔ جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا ، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا ، وہی لوگ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوں گے کیوں کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے ۔ ‘‘
’’ پس جو شخص ذرہ برابر نیک عمل کرے گا، اس کانتیجہ دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا ، اس کا نتیجہ بھی دیکھ لے گا ۔ ‘‘
’’اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور کہا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہ کروں گا۔خواہ مرد ہو یا عورت۔‘‘
’’ ہم نے تم کو جو کچھ بخشا ہے اس میں سے خرچ کر دو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہے کہ میرے رب! کاش تو مجھے تھوڑی مہلت اور دیتا تو میں تیرے راستے میں خرچ کرتا اور نیکو کاروں میں سے ہوتا۔ مگر اللہ کسی نفس کی مدتِ مقررہ آن پہنچنے کے بعد پھر اس کو مہلت ہرگز نہیں دیتا۔‘‘
’’ کاش تم وہ وقت دیکھتے جب مجرم اپنے رب کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کہ پروردگار ہم نے اب دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس کر دے ہم اچھے عمل کریںگے ۔ اب ہم کو ایقان حاصل ہو گیا ہے ۔ مگر کہا جائے گا کہ اب اس کوتاہی کا مزہ چکھو کہ تم نے اس دن ہمارے پاس حاضر ہونے کو بھلا دیا ، اب ہم بھی تم کو بھلا چکے ہیں ۔ پس اب ہمیشگی کے عذاب کا مزہ چکھو ان اعمال کے بدلے جو تم کریت تھے ۔‘‘
ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا دار العمل ہے ، سعی اور کوشش کی جگہ ہے اور آخرت کی زندگی دار الجزا ہے، نیکی اور بدی کے پھل اور اعمال کے بدلے کا گھر ہے ۔ انسان کو موت کی گھڑی تک دنیا میں عمل کرنے کی مہلت ملی ہوئی ہے ۔ اس کے بعد اسے پھر عمل کی مہلت ہرگزنہ ملے گی ۔ لہٰذا اس عرصۂ حیات میں اس کو یہ سمجھ کر سعی کرنی چاہیے کہ میراہر کام ، میری ہر حرکت ، میری ہر برائی اور بھلائی اپنا ایک اثر رکھتی ہے ، ایک وزن رکھتی ہے اور اثر اور وزن کے مطابق مجھے بعد کی زندگی میں اچھا ے برا نتیجہ ملنے والا ہے ۔ مجھے جو کچھ ملے گا وہ میری یہاں کی کوشش اور میرے یہاں کے عمل کا بدلہ ہو گا ۔ نہ میری کوئی نیکی ضائع ہو گی اور نہ کوئی بدی سزا سے بچے گی ۔