’’کون یہ زنجیریں توڑے گا!!‘‘

306

گلشن ناز
یوم آزادی بھی گزر گیا یوم سیاہ بھی منالیا گیا یوم سیاہ منانے کا فائدہ یہ ہوا کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان اور دیگر ممالک میں آباد مسلمانوں کی یکجہتی اور پرزور احتجاج سے پوری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ کشمیر تنہا نہیں ہے، نہ ہی عالم اسلام نے مسئلہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ تصور کر کے اس سے چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ برسلز، جنیوا، بارسلونا، میلان، ایتھنز، ولنگٹن، برلن، پیرس، ٹوکیو، انقرہ اور تہران سمیت کئی یورپی و اسلامی شہروں کے مظاہروں نے اس یوم سیاہ کو سرکاری سطح سے اٹھاکر عالمی سطح تک پہنچا دیا، اور او آئی سی بھی حرکت میں آگئی اور اس نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کردیا اس صورتحال کے پش نظر پاکستان کی یوم سیاہ منانے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان نے جس قدر سخت حکمت عملی ممکن تھی ان پر عمل درآمد کیا اور اب بھی کر رہا ہے۔
عالمی طاقتوں اور رہنماؤں سے رابطے، بھارت سے سفارتی تعلقات میں کمی اور تجارتی تعلقات کی بندش سے پاکستان نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں پرزور طریقے سے یوم سیاہ منانے سے بھارت کے اس موقف کی کمزوری ثاھبت ہو گئی کہ اس نے کشمیریوں کے تحفظ اور مفاد کے لیے دفعہ 370 اور 35A ختم کیا ہے، گرچہ یوم سیاہ کا مقصد یکجہتی کشمیر تھا جو کسی حد تک پورا بھی ہوا اس ساتھ ہی پاکستان نے سلامتی کونسل کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل اور اس دفعہ 370 کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس بلانے کے لیے خط بھی لکھا جبکہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیرس نے بھی بھارتی موقف کی تردید کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قرادادوں کے مطابق ہوگا جس کے نتیجے میں آج پچاس سال بعد ایک دفعہ پھر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب کیا گیا، اگرچہ کے مسئلہ کشمیر بند دروازے کے پیچھے زیر بحث آیا مگر ہنگامی اجلاس کا طلب کیا جانا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے اور ایک طرح سے پاکستان کی سفارتی فتح ہے کیوںکہ بھارت نے اپنے جھوٹے اور بے بنیاد موقف کو مرچ مسالحہ لگا کر عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یوم سیاہ میں عالمی سطح پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ سکھ اور عیسائی برادری کے جوش و تعاون نے بھی بھارت کا چورن بکنے نہ دیا۔
اس اجلاس میں کشمیر کے حق خودارادیت کو غصب کرنے، کشمیریوں کے حقوق کو کچلنے اور انسانی حقوق کی پامالی کے لیے کی جانے والی ریاستی دہشت گردی کے مسائل زیر غور لائے گئے اور سلامتی کونسل اور ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پر اظہار تشویش کیا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ صرف چین ہی کھڑا نظر آرہا ہے جس کی وجہ یہ کہ بھارت کے اس اقدام نے چین کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے اور دو طرفہ معاہدوں اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے مگر عالمی حکمرانوں اور اداروں کی تشویش سے بات کا بن جانا کافی نہیں، مذکورہ صورت حال کے مطابق اب تک سفارتی، تجارتی، عسکری و دیگر سطح پر پاکستان کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے۔ لیکن ہمیں 1949 کا وقت بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب مسئلہ کشمیر پاکستان بننے کے صرف دو سال بعد ہی حل ہونے کے قریب تھا اور جب پاکستان کی فوج کشمیر کی سرحد پر بے جگری سے بھارت سے جنگ لڑ رہی تھی اور بھارت جب تک مقابلہ کرسکا، کرتا رہا اور جب اسے اپنی پسپائی کا یقین ہونے لگا تو بھارت معاملہ سلامتی کونسل میں لے گیا اور کہا کہ جنگ بندی کر کے فیصلہ کشمیری عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ آنے والے وقت میں وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ کشمیری عوام اپنا تحفظ و استحکام کس ملک کے ساتھ رکھا چاہتے ہیں؟ لیکن پھر وقت گزرتا گیا یکے بعد دیگرے تین جنگیں 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں لڑی گئیں لیکن بھارت ہر بار اپنی یقینی ہار کو جیت میں تبدیل کرنے کے لیے عالمی اداروں کا سہارا لے لے لیتا ہے اور انسانی حقوق کا محافظ بن کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں بھارت اپنا پتا کھیل چکا اس نے آئین میں کشمیریوں کے خلاف اہم ترین ترمیم کردی لیکن اب بھی پاکستان جس قدر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے وہ دنیا کے سامنے ہے ایسے میں پاکستان کو صرف عالمی اداروں کی یقین دہانی کے سامنے بے بس نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان سلامتی کونسل کے اجلاس پر تکیہ کیے رکھے اور اس تحریک میں کمی کردے اور خدانخواستہ تاریخ ایک بار پھر دہرائی جائے اور اور محض تشویش کا اظہار کر کے تحریک آزادی کشمیر کا جوش و ولولہ ٹھنڈا کردیا جائے اور بات چیت کو مصالحتی رنگ دے کر گزشتہ دو ہفتوں سے جاری کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں، کیوں کہ اب کشمیریوں کی منزل بس قریب ہے اندیشہ ہے کہیں پھر سے بھارت سارے کھیل کی بازی نہ پلٹ دے اور منزل دلی دور است ہوجائے اور کشمیریوں کی یکجہتی کے لیے پاکستان کی ساری سفارتی، تجارتی، اور عسکری کاوشیں بے کار و بے جان پڑ جائیں اب دیکھنا ہے کون سا عالمی ادارہ، مصالحتیں، کانفرنس، کردار یہ ظلم کی زنجیریں توڑے گا؟؟۔