کوئلے کی کانوں میں حادثات کی تحقیقات کی جائیں

180

رپورٹ:قاضی سراج

پاکستان ورکرز کنفیڈریشن، متحدہ لیبر فیڈریشن اور مائنز ورکرز فیڈریشن کے رہنما قموس گل خٹک، پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی، پیپلز لیبر بیورو کے رہنما حبیب الدین جنیدی، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ناصر منصور، سماجی کارکن انیس ہارون، صحافی عاجز جمالی، پاکستان ریلوے کے رہنما مقدر زمان نے 22 جولائی کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر اسٹیج پر HRCP کے رہنما اسد اقبال بٹ، اسٹیٹ بینک کے رہنما لیاقت ساہی، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرہ خان اور عورت فائونڈیشن کی رہنما مہناز رحمان بھی موجود تھیں۔ سینئر مزدور رہنمائوں نے کہا کہ بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں تسلسل سے حادثات ہورہے ہیں جن میں مزدوروں کی ہلاکت ہوتی ہے اور کئی محنت کش زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کی سب اہم وجہ کانکنی کے مقامات پر صحت وسلامتی کی سہولیات اور احتیا طی تدابیر کا ناپید ہونا اور ان حادثات کی روک تھام میں حکومتی ناکامی ہے۔ 14 جولائی کو بھی کوئٹہ سے 40 کلومیٹر دور ڈیگاری کے مقام پر ایک کوئلے کی کان میں حادثہ کی وجہ سے 9 کان کن جاں بحق اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔یہ حادثہ بجلی کی بہت پرانی کیبل کی وجہ سے پیش آیا، جو کہ 1950 میں بچھائی گئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بلوچستان میں کانکنی کے حادثات کے دوران 164 مزدور جاں بحق ہوچکے ہیں اور 300 سے زائد مزدور زخمی ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبائی حکومت اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں لیے۔دنیا میں کانکنی، خاص طور پر کوئلے کی کانکنی کو خطرناک شعبوں میں شمار کیا جاتا ہے اور کانکنی کے مقامات پر صحت وسلامتی سے متعلق خاص اقدامات کیے جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے کوئی اقدامات نہیں لیے جاتے۔ کانکنی سے متعلق پانچ ملکوں (آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، انڈونیشیا اور سائوتھ افریقہ)میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں 30 ملین مزدور کانکنی کے شعبے سے وابستہ ہیں جن میں سے 10 ملین محنت کش صرف کوئلے کی کانوں میں کام کررہے ہیں۔آئی ایل او کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے کل مزدوروں میں سے کانکنی سے وابستہ مزدور صرف ایک فیصد ہیں، جب کہ کام کے مقام پر اموات میں سب سے زیادہ یعنی آٹھ فیصدکان کنی کا ہے۔ دنیا میں کانکنی میں جدید مشنری کے استعمال اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے محنت کشوں کے کام کرنے کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کانکنی کے شعبے پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور پرانے انداز اور مشنری سے کام لیا جاتا ہے۔ کان کنی کے مقاما ت پر صحت وسلامتی کی سہولیات ناپید ہیں اور حادثات کی صورت میں محنت کشوں کی زندگی بجانے کے لیے انتظامات موجود نہیں ہوتے۔ صوبائی محکمہ محنت کی جانب سے لیبر انسپیکشن کا مؤثر انتظام موجود نہیں ہے۔ ان رہنمائوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال بلوچستان میں گزشتہ 8 برس میں کان کنی کے دوران جان لیوا حادثات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا، مگر تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2010 سے 2018 کے دوران عرصے میں تقریباً 45 واقعات میں 318 کان کن جاں بحق ہوئے ہیں۔
عام طور پر بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں مالکان کی جانب سے حفاظتی انتظامات یقینی بنانا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا جس کے باعث آئے دن کانوں میں حادثات معمول بن گئے ہیں۔ کوئلے کی کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کے اندر آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی لازم ہوتا ہے جبکہ ایک کان کے اندر متبادل راستہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں کانکنوں کو نکالنے میں آسانی ہو۔ مگر ایسے اقدامات اختیار نہیں کیے جاتے۔حادثے کی صورت میں حکومت کی جانب سے مالکان یا ٹھیکیداروں کے خلاف سہولیات کی فرہمی میں ناکامی کے خلاف کوئی اقدامات نہیں لیے جاتے، ناہی مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کانکنی کے شعبے میں ٹھدکوماری کے نظام برقرا ر ہے۔ بڑے بااثر اور مالدار افراد اپنے نام پر مائن اراضی الاٹ کرا دیتے ہیں اور پھر وہ اراضی ٹھیکیداروں اور پیکس ٹھدکنیاروں کو دے دیتے ہیں ، جو ہر مرحلے پر مزدوروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ وہ مزدوروں کو صحت وسلامتی کی سہولیات مہیا کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ منافع کما سکیں۔ زیادہ تر مزدور خیبر پختونخوا کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جواپنے خلاف ظلم وزیادتی پر آواز اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ تمام مائینز کے مقامات پر روایتی پنکھوں سے گیس نکالی جاتی ہے مگر اکثر مقامات پر وہ پنکھے بھی میسر نہیں ہوتے، جیسا کہ اس حاثے کے دوران دیکھا گیا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پنکھوں کے بجائے پی ایم ڈی سی کی جانب سے کسی حادثے کی صورت میں مائنز میں سے گیسز نکالنے
کے لیے جدید آلات مہیا کیے جائیں۔ ہم بلوچستان کی صوبائی حکومت اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کان کنی بالخصوص کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا استحصال فوری طورپر ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے احتیاطی تدابیر کی فرہمی کو یقینی بنائی جائے، اس کے لیے کان کنوں کی کام کرنے کے مقامات پرمزدوروں کی مسلسل تربیت کا موثر انتظام کیا جائے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں وہ نا صرف اپنی جان بچا سکیں بلکہ ساتھی مزدوروں کی بھی مدد کر سکیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام کان کنی کے حادثات کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرائی جائے اور مالکان کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت کیس درج کیے جائیں۔ ان مزدور رہنمائوں نے کہا کہ دوسرا اہم مسئلہ بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے سرکاری اور خودمختار و نیم خود مختار اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تمام رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کرنا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے دس لاکھ محنت کش متاثر ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابقہ فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔بلوچستان کے محنت کشوں نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہم بلوچستان کے محنت کشوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کی جمہوری جدوجہد میں ساتھ ہیں۔ پریس کانفرنس کے موقع پر ہال میں NOWC کی رہنما فرحت پروین، MLF کے رہنما آصف خٹک اور عبدالرئوف، فشر فوک فورم کے رہنما سعید بلوچ، PIA کے رہنما جنت حسین، PC ہوٹل کے رہنما غلام محبوب، سندھ لیبر فیڈریشن کے رہنما شیخ مجید، PWF کے رہنما سید حمید، PTUDC کے رہنما جنت حسین، HRCP کے رہنما عبدالحئی، اربن ریسورس سینٹر کے رہنما زاہد فاروق، NIFT کے رہنما فہیم صابر،محمد معروف، عمران احمداور احمد رضا، پاکستان کیبلز کے رہنما خالد خان اور دیگر بھی موجود تھے۔