افغانوں کو ٹرمپ کی دھمکی

384

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکا کی کٹھ پتلی ہونے کے باوجود بروقت امریکی صدر کی اشتعال انگیزی کا جواب دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں دعویٰ کیا کہ ہم افغان جنگ جیت سکتے ہیں لیکن افغانستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور ایک کروڑ افغان مارے جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہاکہ وہ باآسانی افغان جنگ جیت سکتے ہیں۔ ان کے پاس افغان تنازع کے حل کے منصوبے تھے لیکن افغانستان ختم ہوجائے گا اور صرف 10 دن میں واقعی ختم ہوجائے گا۔ لیکن وہ اس راستے پر جانا نہیں چاہتے۔ یہ ایک ایسے ملک کے سربراہ کے دعوے ہیں جو 2001ء سے افغانستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور نیویارک میں امریکی معیشت کی علامت جڑواں میناروں (ٹوئن ٹاورز) کی تباہی کے فوراً بعد بغیر کسی ثبوت کے 40 صلیبی ممالک کی فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ افغانستان پر کارپٹ بمبنگ کی گئی، یعنی بموں کے قالین بچھادیے گئے، افغانستان پر اندھا دھند بمباری کی گئی خواہ جلوس جنازہ ہو یا شادی کی تقریب۔ لاکھوں افغان شہید اور زخمی ہوئے لیکن افغان مجاہدین کے حوصلوں کو شکست نہیں دی جاسکی۔ اُلٹا امریکی عزائم اور جارحیت کو شکست ہوئی ہے اور وہ افغانستان سے نکل بھاگنے کے راستے تلاش کررہا ہے۔ اس کے صلیبی ساتھی تو پہلے ہی ایک ایک کرکے بھاگ نکلے۔ افغانستان پر چڑھائی کرنے والے بزدل امریکیوں کا عالم یہ ہے کہ مجاہدین کے خوف سے اپنی بکتر بند گاڑیوں باہر سے نکلنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ چناں چہ پاکستان کے حکمرانوں کے تعاون سے افغان مسلمانوں کے قاتلوں کو جو سامان کنٹینروں کے ذریعے فراہم کیا جاتا رہا ہے اس میں پیمپرز بھی شامل ہوتے ہیں تا کہ رفع حاجت کے لیے گاڑی سے اترنا نہ پڑے۔ افغانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ عیش پرست نہیں، پہاڑوں اور صحرائوں میں زندگی گزار لیتے ہیں اور 1979ء سے حالت جنگ میں ہیں، ان 40 برس میں افغانوں کی دوسری نسل نے بم دھماکوں، ٹینکوں کی گڑ گڑاہٹ اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ میں آنکھیں کھولی ہیں۔ ٹرمپ انہیں کیا ڈرا سکے گا، انہوں نے امریکا کی ہم پلہ سپر پاور سوویت یونین کو اس طرح پسپا ہونے پر مجبور کیا کہ بھاگتے ہوئے چھ مسلم ریاستوں کو بھی آزاد کرنا پڑا۔ ایک زمانے میں جب برطانیہ سپر پاور بنا ہوا تھا اور برعظیم پاک و ہند سمیت کئی ممالک پر قابض تھا، اسے بھی افغانستان کو فتح کرنے کا شوق چرایا تھا، اس نے جو فوج بھیجی وہ ساری کھیت رہی، صرف ایک لنگڑا ڈاکٹر بچ کر آیا جسے افغانوں نے گدھے پر سوار کرکے اس لیے چھوڑ دیا کہ جا کر سپر طاقت کو بدترین شکست کی داستان سنا سکے۔ ان جانبازوں کو ٹرمپ موت سے ڈرا رہا ہے۔ امریکا مزید 20 سال افغانستان میں ضائع کرنا اور اپنے فوجیوں کی مزید لاشیں اُٹھانا چاہے تو یہ کر دیکھے۔ لیکن بش سے لے کر ٹرمپ تک کوئی امریکی صدر اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ ٹوئن ٹاورز کی تباہی کے ڈرامے سے افغانوں کا کیا تعلق تھا؟ کیا کوئی افغان اس میں ملوث تھا؟ یہ بھی ثابت ہے کہ امریکا نیویارک واقعہ سے پہلے ہی افغانستان پر حملہ کرنے کی تیاری کرچکا تھا۔ اس مکار اور جنگ باز قوم سے کچھ بھی بعید نہیں جس نے بہت بڑا جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کردیا تھا مگر آج تک اس پر معذرت نہیں کی۔ ایسی قوم اور اس کے صدر سے عمران خان توقعات باندھ کر آئے ہیں۔