پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

282

۲۲؍ ستمبر ۱۹۵۳ء کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اسلام اور جمہوریت پسند عوام کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور عارضی دستور پیش نہ کیا جاسکا۔ اس موقع پر علامہ سید سلیمان ندویؒ‘ مولانا مفتی محمد شفیعؒ صاحب‘ محمد ہاشم گذدر ‘ حسین امام صاحب‘ ملک شریح الدین اور شیخ سلطان احمد صاحب امیر جماعت اسلامی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ:’’ عوام عارضی دستور کے سخت مخالف ہیں اور اسلامی دستور کی تکمیل میں مزید کسی تاخیر کو برداشت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں‘‘۔
۲؍ نومبر ۱۹۵۳ء کو دستور ساز اسمبلی میں وزیر قانون جناب اے کے بروہی نے انڈیمنٹی بل (Indemnity Bill) پیش کیا اور اگلے روز اسے منظور کرالیا گیا۔ اس بل کے بارے میں گورنر جنرل ملک غلام محمد کی رضامندی پہلے ہی حاصل کرلی گئی تھی۔ اس بل کی رو سے مارشل لا کی سزاؤں کو جائز قرار دے کر ملک کی سول عدالتوں میں اپیل کرنے کا حق چھیننے کا ظالمانہ قانون بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے:’’ مالیاتی امور کو ۲۵ سال تک قرآن و سنت کی پابندیوں سے الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا‘‘۔ یہ قراردادیں ان لوگوں نے منظور کیں‘ جو اس بات کا حلف اٹھا چکے تھے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
اس سے صرف ایک دن پہلے دستور ساز اسمبلی ‘ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اجلاس ۲۱ تا ۲۵؍ نومبر ۱۹۵۳ء کو کراچی میں منعقد ہوا‘ امیرجماعت اسلامی شیخ سلطان احمد نے صدارت کی یہ اجلاس امیر جماعت کے مکان واقع پیر الٰہی بخش کالونی میں منعقد ہوا۔ سب سے پہلے نو منتخب مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان نے فرداً فرداً حلف رکنیت اٹھایا۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے دستور اسلامی کے نفاذ انڈمنٹی ایکٹ (Indemnity Act)، بحالی جمہوریت‘ حکومت پنجاب کے ظالمانہ اقدامات اور مولانا مودودی کو اسیری کے دوران تفہیم القرآن کے باقی ماندہ حصوں کو مکمل کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں قرار دادیں منظور کی گئیں جس میں ملک کے دستور سازوں سے ایک مکمل اسلامی دستور جلد از جلد مرتب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مجلس شوریٰ نے زور دیا کہ دستورساز اسمبلی‘ عوام اور علماء کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے دستور کے بقیہ حصوں کی بھی منظوری دے دے‘ تاکہ ۱۴؍ اگست ۱۹۵۴ء کو اسلامی دستور کو نافذ کردیا جائے۔ مجلس شوریٰ نے بعض سیاسی فتنہ گروں کی دستوریہ کو توڑنے کی باتوں پر کڑی تنقید کی اور اسے ایک قطعی نامعقول تجویز قراردیا۔
آخر میں مجلس شوریٰ نے برسراقتدار طبقے کو نصیحت کی‘ کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے اسلامی دستوری بنیادیں قائم کریں اور جاہلیت پر مبنی اپنی حاکمانہ پالیسیاں ترک کرکے اپنی زندگی اور نقطہ نظر میں حقیقی تغیّر پیدا کریں۔
اس سے پہلے صوبائی الیکشن میں مشرقی پاکستان کی سیاسی صورت حال بدل گئی۔ حکمراں مسلم لیگ کو جس کی قیادت وزیراعلیٰ مسٹر نورالامین کر رہے تھے جگتو فرنٹ (United Front) نے ۱۰؍ مارچ ۱۹۵۴ ء کو عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا‘ اور مولوی فضل الحق وہاں کے وزیراعلیٰ ہوگئے۔ اس صورت حا ل سے مرکز میں مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو بہت دھچکا پہنچا۔ ۷؍ مئی کو مجلس دستور ساز نے بنگلا کو بھی قومی زبان قرار دے دیا۔ مشرقی پاکستان کے نئے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے کلکتہ کا دورہ کرتے ہوئے متحدہ بنگال کے قیام کے بارے میں ایک متنازع بیان دیا‘ جو نظریہ پاکستان کی نفی کرتا تھا۔
۸ ؍مارچ ۱۹۵۴ء کو مشرقی پاکستان میں ۳۰۹ ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ انتخابات میں بنگالی قوم پرست جگتو فرنٹ (متحدہ محاذ) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر اکثریتی پارٹی بن گئی۔ اس نے ۲۳۷ مسلم نشستوں میں سے ۱۵۱ نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ کو بدترین شکست ہوئی مسٹر نورالامین (وزیراعلیٰ) ایک طالب علم رہنما خالق نواز خان سے ہار گئے۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:’’ مسلم لیگ کی مشرقی پاکستان میں شکست کے باوجود دستور ساز اسمبلی کو توڑا نہیں جائے گا‘‘۔
نظم جماعت میں تبدیلی
مارچ ۱۹۵۴ء کے وسط تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ملک نصراللہ خان عزیز اور سید نقی علی صاحب کے سوا ‘ جماعت کے سب ہی کارکنان رہا ہوچکے تھے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک خصوصی اجلاس ۱۵ ؍مارچ ۱۹۵۴ء کو شروع ہوا اور ۲۴؍ مارچ تک جاری رہا۔ شیخ سلطان احمد نے اس اجلاس میں جماعت کی امارت سے اس بنا پر استعفیٰ دے دیا کہ اس منصب کے لیے ان سے اہل تر اور زیادہ معتمد حضرات رہا ہوکر باہر آگئے ہیں۔ مجلس شوریٰ نے ان کا استعفیٰ منظور کرکے اتفاق رائے سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کو امیر جماعت مقرر کردیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی نظام کی یہ ہیئت جون ۱۹۵۵ء تک قائم رہی۔
مولانا مسعود عالم ندویؒ کی رحلت
دارالعروبہ کا پورا نام دارالعروبہ اللدعوۃ الاسلامیہ تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ عربی شعبہ تھا۔ جسے مولانا مودودیؒ کی خواہش پر مولانا مسعود عالم ندویؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد غیر منقسم ہندوستان میں جماعت کے لٹریچر اور دینی کتب کو عربی زبان میں منتقل کرنے اور عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوتِ دین سے روشناس کرانے کے لیے قائم کیا تھا۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ ندوۃ العلماء کے فارغ التحصیل اور سید سلیمان ندویؒ کے شاگرد رشید تھے۔ انھوں نے دارالعروبہ کے کام کی ذمے داری اپنے سر اس وقت لی تھی جب کہ پورے عالم عرب میں جماعت اسلامی اور اس کی دعوت سے لوگ آشنا نہیں تھے۔ رسالہ ’الضیاء‘ کی ادارت کی وجہ سے برعظیم کے عربی داں کی حیثیت سے مولانامسعود عالمؒ کی شخصیت مصر‘ شام‘ فلسطین‘ عراق اور نجدوحجاز کے علمی اور ادبی حلقوں میں متعارف تھی۔ اس تعارف سے استفادہ کرتے ہوئے مولانا مسعود عالم ندویؒ نے جماعت اسلامی کی چھوٹی بڑی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کیا۔
(جاری ہے)