چھینٹا پڑتے ہی بجلی غائب

385

کراچی میں ابھی باقاعدہ بارشوں کا آغاز نہیں ہوا بس پیر کی شب شہر میں چند منٹ کی ہلکی پھوار پڑی مگر اس کا نتیجہ کراچی کے شہری منگل کی شب تک بھگت رہے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقریبا پورا کراچی تاریکی میں ڈوب گیا اور منگل کی شب تک شہر میں بجلی کی آنکھ مچولی کی شکایات آرہی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی رپورٹ حیدرآباد سے بھی موصول ہوئی ہے کہ وہاں پر بھی ٹیکنیکل فالٹ کے نام پر شہری بجلی سے محروم ہیں ۔ کراچی میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے ذمہ دار ادارے کے الیکٹرک کاہر صارف کو یہی جواب ہے کہ ٹیمیں آپ کے علاقے میں کام کررہی ہیں ۔ چھ چھ گھنٹے تک مسلسل بجلی غائب ہے مگر یہ ٹیمیں کہاں پر اور کیا کام کررہی ہیں ،ا س کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اتوار سے کراچی میں شدید گرمی کی لہر آئی ہوئی ہے ۔ اس میں نمی کے حد درجہ زیادہ تناسب نے مزید تباہی پھیر دی ہے کہ پنکھے میں ہونے کے باوجود بھی پسینہ خشک ہونے میں نہیں آرہا ۔ ایسے میں بجلی کی بندش کا مطلب شدید اذیت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ پیر کی شب کراچی کا نوے فیصدعلاقہ بجلی سے محروم تھا ۔ کئی کئی گھنٹوں کے بعد بجلی بحال ہونے کے بعد بھی بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ جاری ہے جسے کے الیکٹرک لوڈ منیجمنٹ کا نام دے رہی ہے ۔ آخر یہ لوڈ منیجمنٹ کے بہانے پورے کراچی کی بجلی کیوں بند ہے ۔کیا اچانک بجلی کا استعمال بڑھ گیا ہے ۔ رات کے اوقات میں جبکہ سارے صنعتی اور کاروباری ادارے اور مارکیٹیں بند ہوتی ہیں ، تو پھر بجلی کی طلب میں ایسا کون سا زبردست اضافہ ہوگیا ہے کہ کے الیکٹرک کے قابو میں نہیں آرہا ہے ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک اپنے پیداواری یونٹ صرف اور صرف ادھار کے فرنیس آئل اور سستی قدرتی گیس پر چلاتی ہے جبکہ واپڈا سے انتہائی ارزاں نرخوں پر بجلی لے کر کراچی کے شہریوں کو بھاری نرخوں پر فروخت کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کبھی بھی اپنی پوری استعداد کے مطابق بجلی نہیں پیدا کرتی جس کا خمیازہ کراچی کے شہری بھگتتے ہیں ۔ حیدرآبا دمیں کے الیکٹرک نہیں ہے تو وہاں پر حیسکو میں نااہل اور سفارشی افراد بیٹھے ہوئے ہیں جوفالٹ دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ کے الیکٹرک ہو یا حیسکو ، یہ حکومت ہی کی نااہلی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہے اور ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے پر بھی تیار نہیں ہے ۔