ایغور مسلمانوں کو ایک اور المیے کا سامنا

445

سنکیانگ کے ایغور مسلمان چین کی وحشت انگیز چیرہ دستی کا تو شکار ہیں ہی اب انہیں اس کے علاوہ ایک اور عبرتناک المیے کا سامنا ہے۔ وہ المیہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ملکوں نے ان سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے اور کوئی بھی مسلمان ان کے حق میں کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک ترکی تھا جس نے کچھ عرصہ پہلے ان کے حق میں آواز بلند کی تھی اور ان کے ساتھ چین کے وحشیانہ سلوک پر احتجاج کیا، لیکن اب وہ بھی پیچھے ہٹ گیا ہے اور اس نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو 22 ممالک نے جن میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہ تھا ایک مراسلے کے ذریعے ایغور مسلمانوں کے ساتھ جاری انسانیت کش سلوک پر احتجاج کیا تھا۔ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ کم و بیش 10 لاکھ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھ کر تشدد کے ذریعے انہیں اپنا مذہب چھوڑنے اور چینی کلچر اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مراسلے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی پر چین سے احتجاج کرے اور اسے اس رویے سے باز رکھے۔ اس مراسلے نے چین کو بُری طرح برہم کردیا اور اس نے زبردست سفارتی رابطوں کے ذریعے 22 کے مقابلے میں 37 ممالک کو اپنی پشت پر لاکھڑا کیا جن میں پاکستان اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ اِن ممالک نے ایغور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے چین کے موقف کا دفاع کیا ہے اور ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ ہم انسانی حقوق کے شعبے میں چین کی غیر معمولی کامیابی کو سراہتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اِن ملکوں نے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف چین کے اقدامات کی تعریف کی ہے اور سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ اس کے سلوک کو درست قرار دیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ ان مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں نہیں بلکہ ’’ری ایجوکیشن سینٹرز‘‘ میں رکھا جارہا ہے جہاں انہیں چینی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی تربیت دی جارہی ہے اور انہیں مختلف فنون اور ہنر سکھائے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں سنکیانگ میں امن و سلامتی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ 37 ممالک کے اس گروپ نے مشترکہ اعلامیے کو انسانی حقوق کی باضابطہ دستاویز کے طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ریکارڈ میں رکھنے پر زور دیا ہے۔ کونسل کا 41 واں سیشن پچھلے دنوں میں جنیوا میں ہوا جس میں اس مشترکہ اعلامیہ کو ایک اہم دستاویز کے طور پر پیش کیا گیا۔
ہم نے یہ تفصیل اس لیے پیش کی ہے کہ قارئین اس بات کا اندازہ کرسکیں کہ چین اپنی سرگرم سفارتی کاوشوں کے ذریعے کس طرح ایغور مسلمانوں کے بارے میں حقائق پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان مسلمانوں کے ساتھ اگر کسی کو ہمدردی ہوسکتی تھی تو وہ مسلمان ممالک ہی تھے لیکن چین نے ان میں زبردست سفارت کاری
کی ہے ان کی بااثر جماعتوں اور سوشل گروپس کو باقاعدہ سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کا دورہ کرایا ہے اور انہیں وہی کچھ دکھایا ہے جو وہ دکھانا چاہتا تھا۔ چین اور خاص طور پر سنکیانگ میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بیرونی وفد اپنی آزدانہ مرضی سے نقل و حرکت کرکے لوگوں سے معلومات حاصل کرسکے۔ چینی معاشرہ اور وہاں موجود نسلی، لسانی اور مذہبی اقلیتیں مکمل طور پر آہنی حصار میں ہیں۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں نے مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس کے مطابق 10 نہیں بلکہ 20 لاکھ ایغور مسلمان حراستی کیمپوں میں رکھے گئے ہیں جہاں انہیں اپنا مذہب چھوڑنے کے لیے ان پر ناقابل بیان تشدد کیا جارہا ہے۔ رمضان کا مہینہ ان پر اس طرح گزرا کہ انہیں دن میں شراب پینے اور سؤر کھانے پر مجبور کیا گیا۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنے یا نماز پڑھنے کا تو مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے، اگر وہ ایسا کریں تو ان پر کوڑے برسائے جاتے ہیں اور ان کی چیخیں آسمان کو لرزا دیتی ہیں۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ایغور مسلمانوں کے بچوں کو اپنے والدین سے الگ رکھا جارہا ہے اور انہیں تعلیم و تربیت کے ذریعے مکمل طور پر ملحد اور مذہب دشمن بنایا جارہا ہے۔
ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کی اصل کامیابی یہ ہے کہ اس نے پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلمان ملکوں کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔ ترکی اگرچہ اس معاملے میں اس کا حامی نہیں ہے لیکن مصلحتاً وہ بھی خاموش ہوگیا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو وہ سی پیک کے علاوہ چین کے ساتھ بہت سے معاہدوں اور قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، وہ کسی معاملے میں بھی چین کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ چین اپنی سفارتی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو آئے دن اپنی سرزمین کا دورہ کراتا رہتا ہے۔ یہ لوگ جب واپس آتے ہیں تو چین کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں۔ چین کی سفارت کاری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنا ’’سافٹ امیج‘‘ ظاہر کرنے کے لیے اپنے نظریاتی حریفوں سے بھی رابطہ رکھتا ہے اور ان کی میزبانی میں کسر اُٹھا نہیں رکھتا۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو وہ حرمین شریفین کا متولی ضرور ہے اور اسے عالم اسلام میں مرکزیت بھی حاصل ہے لیکن اسے مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سعودی حکمران مسلمانوں کے حالات کو عالمی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی ساری دلچسپی اس بات میں ہے کہ ہر حال میں ان کی بادشاہت برقرار رہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی زمانے میں امریکا سنکیانگ کے مسلمانوں کی آزادی و خود مختاری کا حامی تھا اور سی آئی اے ان کی مدد کرتی رہتی تھی لیکن نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے بارے میں اس کی پالیسی بالکل تبدیل ہوگئی ہے اب دُنیا بھر میں وہ سب مسلمان اس کے نزدیک دہشت گرد ہیں جو اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ امریکا گزشتہ سال اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے بھی علیحدگی اختیار کرچکا ہے، اس طرح انسانی حقوق کا معاملہ بھی امریکا کے نزدیک اہم نہیں رہا۔ اندریں حالات ہم ایغور مسلمانوں کے لیے سوائے دعا کے اور کیا کرسکتے ہیں۔