پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

507

یہ کتابچہ اس فتنے کی حقیقت اور قادیانیوں کے سیاسی عزائم و مضمرات سے عام پڑھے لکھے افراد کو آگاہ کرنے کا ایک بہترین وسیلہ بنا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کتابچہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد بھی کثیر تعداد میں چھپتا رہا اور پورے ملک میں تقسیم ہوتا رہا اور اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ اچانک ریڈیو پاکستان سے اعلان کیا گیا کہ مولانا مودودیؒ اور دیگر پر سیفٹی ایکٹ کے بجائے مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ ۵؍ مئی ۱۹۵۳ء سے ۹ ؍مئی تک فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔ ۱۱ ؍مئی ۱۹۵۳ء بمطابق ۲۵؍ شعبان ۱۳۷۲ھ کو نماز مغرب کے بعد مولانا مودودیؒ اور مولانا عبد الستار نیازیؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ مولانا مودودیؒ کا جرم ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتابچہ تحریر کرنا قرار دیا گیا‘ جو مارشل لا کے نفاذ سے پہلے چھپ چکا تھا اور مارشل لا کے بعد بھی چھپتا رہا اور اس کی اشاعت اور تقسیم پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔
روزنامہ ’تسنیم‘ کے مدیر نصراللہ خان عزیز کو ۵ ؍مارچ ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودیؒ کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ سید نقی علی کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا سنائی گئی۔ مولانا مودودیؒ کو قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے پر سزائے موت اور علماء کی گرفتاری پر بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ مارشل لا کے تحت سزاؤں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں تھا۔ مولانا سے کہا گیا کہ: ’’آپ چاہیں تو سزا کے خلاف ۷ دن کے اندر کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے اس موقع پر بے مثال جرأت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ یہ ان کی سیرت کا ایک ایسا روشن پہلو ہے جو حق پرستوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔ یہ سنتے ہی سیّد مودودیؒ کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہوکر تمتما اٹھا اور انہوں نے نہایت گرجدار اور باوقار لہجے میں مجاہدانہ شان سے جواب دیا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اور موقع پر موجود اپنے رفقاء سے مخاطب ہوکر مولانا نے فرمایا: ’’آپ ایک بات یاد رکھیں میں نے کوئی جرم نہیں کیا میں رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا‘ نہ کسی کو میری طرف سے اپیل دائر کرنی چاہیے۔ نہ میری والدہ کو‘ نہ بھائی کو‘ نہ میری اہلیہ کو‘ نہ بچوں کو۔ جماعت کے ارکان سے بھی میری یہی گزارش ہے‘‘۔
عالم اسلام کی صدائے احتجاج
سزائے موت کے اعلان پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے عالم اسلام میں کہرام بپا ہوگیا اور ہر چار جانب سے شدید صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ پورے پاکستان میں جگہ جگہ ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ کراچی میں ۱۲؍ مئی ۱۹۵۳ء کو مکمل ہڑتال ہوئی۔ کراچی ائرپورٹ پر وزیراعظم کو ایک بہت بڑے مخالف ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے فوری کارروائی کی یقین دہانی پر جان چھڑائی۔ مولانا پر حکومت اور احباب کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ معافی مانگ لیں۔ مولانا کا ایک ہی جواب تھا کہ اگر مجھ جیسا آدمی رحم کی اپیل کرے تو پھر اس قوم کو بہادری کا سبق کون دے گا۔
سزائے موت کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک التو پیش کی گئی۔ یہ تحریک التوا ریٹائرڈ جسٹس محمد افضل چیمہ نے پیش کی جس پر قائد ایوان ملک فیروز خان نون نے جو پنجاب میں دولتانہ وزارت کے خاتمے پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن چکے تھے کھڑے ہو کر ایوان کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر مولانا مودودی رحم کی اپریل دائر کر لیں تو حکومت ان کی سزا منسوخ کرنے کی یقین دہانی کرتی ہے۔
بیرون ملک سے مسلم زعماء کے احتجاجی تاروں اور پیغامات کا تانتا بندھ گیا اور فوجی عدالت کے فیصلے کو بہیمانہ قرار دیا گیا۔ ہر طرف سے مولانا مودودیؒ کی رہائی کے مطالبات آنا شروع ہوگئے۔ انڈونیشیا کی تیس سے زیادہ دینی جماعتوں کی طرف سے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے نام یہ ٹیلی گرام آیا کہ: ’’اگر مولانا مودودیؒ کی پاکستان کو ضرورت نہیں ہے تو عالم اسلام کو ان کی شدید ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان‘ مولانا مودودیؒ کو انڈونیشیا کو دے دے‘‘۔ حکومت میں شامل لوگوں کو فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ فوجی عدالت کا فیصلہ اس کے لیے کیا کیا مسائل کھڑے کرے گا۔ چنانچہ ۱۲ ؍مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ (نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی تاریخ‘ اس فتنے کی روک تھام‘ قادیانیت کی ابتدا‘ اس کا قلع قمع کرنے میں مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے کردار کی تفصیل اور فوجی عدالت میں بیان۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تصنیف ’’قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی پہلو‘‘ نئی ۲۰۰۰ مطبع اسلامک پبلی کیشنز لاہور میں ملاحظہ کریں)
(جاری ہے)