آئی ایم ایف سے معاہدہ۔ شرائط و مطالبات کا نیا سلسلہ

351

3 جولائی کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد حکومت کو 9 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حکومت نے جو شرائط آئی ایم ایف کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے یا جو مطالبات اس معاہدے کے مذاکرات کے دوران حکومت نے تسلیم کیے ہیں ان کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات دو ہیں جن میں سے ایک ہے تجارتی خسارہ یعنی امپورٹس زیادہ ایکسپورٹس کم یعنی زرمبادلہ کی طلب اس کی رسد سے بڑھ جاتی ہے اس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔دوسری وجہ مالیاتی خسارہ Fiscal Deficit ہے یعنی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ تو آئی ایم ایف کی تمام شرائط و مطالبات کا تعلق ان دونوں خرابیوں کو کم کرنے سے ہے۔ لیکن جس طرح مریض کو دوا دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کو دوا کی اتنی ہی خوراک دی جائے کہ اس کا جسم اس دوا کو برداشت کرسکے۔ کیوں کہ اسی صورت میں دوا اپنا اثر دکھاسکے گی اور مریض صحت یاب ہوجائے گا جب کہ آئی ایم ایف کی دوا پاکستان کے معاشی جسم کے لحاظ سے زیادہ مقدار (Over Dose) کی ہے اور اس کا اثر اتنا طاقتور اور تخریبی ہے جس کی وجہ سے مثبت کے مقابلے میں منفی اثرات کا قوی امکان ہے۔
مالی خسارہ کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھایا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع ہوسکے اس کے لیے رواں مالی سال کا ٹارگٹ 5550 ارب روپے، اگلے سال یعنی 2020-21 کے لیے 7000 ارب روپے، 2021-22 کے لیے 8311 ارب روپے اور سال 2022-23 کے لیے 9486 ارب رکھا گیا ہے۔ لیکن ٹیکس تو اسی وقت جمع ہوسکتا ہے جب معاشی سرگرمیاں حرکت میں ہوں اور کاروبار چل رہا ہو۔ گیس اور بجلی کے نرخ میں بے انتہا اضافہ اور مختلف اشیا کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں شامل کرنے کے بعد پیداواری لاگت میں اضافہ اور نرخوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اس وجہ سے پورے ملک میں کاروبار، چاہے وہ صنعتیں ہوں، تعمیراتی سرگرمیاں ہوں، زرعی پیداوار ہو، سب بحران کا شکار ہیں، اس صورت میں کس طرح ٹیکس جمع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں عمران خان کی تاجروں سے بات چیت ناکام رہی اور وہ ملک بھر میں ہڑتال کی گئی ۔
اسی طرح آئی ایم ایف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہر سہ ماہی پر بجلی، گیس اور تیل کے نرخوں میں نظرثانی کی جائے۔ اس وقت جو پیداواری لاگت وہ پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہے اس میں مزید اضافہ تین ماہ بعد ہوگا۔ ملکی پیداوار کم ہوجائے گی، ٹیکس کی وصولی بھی کم ہوگی۔ جب کہ ٹیکس کا صرف ہر سال 20 سے 25 فی صد بڑھ رہا ہے۔ کرنسی کی شرح مبادلہ کے بارے میں حکومت نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس معاملے میں اسٹیٹ بینک کی مداخلت بالکل نہیں ہوگی اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کی بنیاد پر شرح مبادلہ ہوگی۔ اس سے غیر یقینی برقرار رہے گی۔ ایکسپورٹ آرڈر میں قیمت کا تعین مشکل ہوگا اس سے برآمدات مزید متاثر ہوں گی اور اس طرح تجارتی خسارہ کم نہیں ہوسکے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا تو ڈالر پر دبائو میں اضافہ ہوگا اور روپے کی قدر میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ملکی اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ ان میں وہ ادارے شامل ہیں جو سالہا سال سے خسارہ میں چل رہے ہیں یا بند پڑے ہیں اور ان کے ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جارہی ہیں یہ تقریباً 1400 ارب روپے کا بوجھ ہے جو ٹیکس کی رقم میں سے ان اداروں میں جارہا ہے۔ ان تمام اداروں کو اگلے سال ستمبر تک نجکاری کردینے کی یقین دہانی کرادی گئی ہے۔ اس سے ان اداروں کا بوجھ کم ہوجائے گا لیکن ان اداروں کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گی۔ اس طرح مہنگائی اور بے روزگاری میں ہمارا گراف جو پہلے ہی اوپر جارہا ہے وہ اور تیزی سے اوپر جائے گا۔ جب کہ شبر زیدی صاحب ٹیکسوں کے بارے میں روز ایک نئی بات کررہے ہیں۔ پہلے کہا کہ موجودہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، بعد میں یہ بیان آیا کہ صرف چینی پر ٹیکس لگایا گیا ہے، اب کہتے ہیں آٹے اور میدے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جب آپ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے تو خود بخود چیزیں مہنگی ہوجائیں گی، ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اب تک آئی ایم ایف ہی کی شرائط و مطالبات سامنے آئے ہیں، آئندہ دیکھتے ہیں عوام پر قیامت ڈھانے والی کیا شرائط سامنے آتی ہیں۔