پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

429

جولای ۱۹۵۱ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ’’خاتم النبیین کے بعد دعوائے نبوت‘‘ کے بارے میں ایک خط کے جواب میں مولانا مودودی نے لکھا کہ: ’’جب قرآن اور احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہو کہ محمدؐ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تو یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ حضورؐ کے بعد دعوائے نبوت کرنے والا کون ہے اور کیا لایا ہے۔ کیوںکہ قرآن و حدیث کے ناطق فیصلے کے بعد یہ بحث غیر ضروری اور خدا اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی بھی‘‘۔
قادیانیت کے خلاف تحریک (۱۹۵۲ء)
جولای ۱۹۵۲ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس دوران جماعت اسلامی نے مولانا مودودیؒ کی رہنمائی میں اسلامی دستور کی تیاری کے لیے ایک ملک گیر مہم شروع کی۔ اس مہم کے دوران مطلوبہ اسلامی دستور کی تیاری کے سلسلہ میں آٹھ نکات پر مشتمل جو رہنما اصول پیش کیے گئے تھے‘ ان میں ایک نویں نکتے کا اضافہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا جائے‘ تاکہ وطن عزیز ان کے فتنوں سے محفوظ رہے۔ ۱۵؍ جولای ۱۹۵۲ء کو قادیانیوں کے اخبار ’الفضل‘ میں ایک دھمکی چھپی کہ ’’عطاء اللہ شاہ بخاری‘ ملا بدایونی‘ ملا احتشام الحق‘ ملا محمد شفیع اور ملا مودودی سے خون کا بدلہ لیا جائے گا‘‘۔
اگست ۱۹۵۲ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں مولانا مودودیؒ نے اشارات کے عنوان سے دستوری تجاویز پیش کی تھیں۔ دیگر مطالبات کے علاوہ انہوں نے مجلس دستور ساز سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جس طرح دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخاب اور بلحاظ آبادی نشستوں کا تعین کیا گیا ہے‘ اسی طرح قادیانیوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ مسلمان متفقہ طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ قادیانی ان میں سے نہیں ہیں۔ قادیانی خود بھی غیر قادیانیوں کو مسلمان نہیں مانتے اور ان کے پیچھے نہ تو نماز پڑھتے ہیں اور نہ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں۔ لہٰذا مجلس دستور ساز کے لیے کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک اقلیتی گروہ کو زبردستی مسلم قوم کا ایک جزو بنانے پر اصرار کرے‘ جسے یہ قوم اپنا جزو نہیں مانتی۔ حکومت نے ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ کی جو رپورٹ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۵۲ء کو شائع کی اس میں اس مسئلے کو بالکل نظر انداز کردیا۔
علمائے کرام جنہوں نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ نکاتی فارمولا مرتب کرنے میں حصہ لیا تھا‘ وہ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۳ء کو کراچی میں پھر اکٹھا ہوئے اور یہ اجلاس ۱۸؍ جنوری تک جاری رہا۔ ان سرکردہ علماء میں جن میں امیر جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ بھی شامل تھے۔ دستوری سفارشات میں ایک اہم ترمیم کا مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ اقلیت قرار دے کر پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ان کے لیے ایک نشست مخصوص کردی جائے۔
پاکستان بننے سے پہلے علمائے کرام اور مختلف دینی جماعتیں شروع ہی سے قادیانی فتنے کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اپنی تحریروں کے ذریعے قادیانیت کے خلاف مدلل موقف پیش کرتے رہے۔ مسلمانوں کو اس فتنے سے ہوشیار رہنے کی تلقین اور قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دینے کی سفارش کرتے رہے تھے۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی قادیانی حضرات بہت زیادہ سر گرم ہو گئے۔ ملک کے پہلے وزیر خارجہ سرظفراللہ خان بنے جنہوں نے قائدعظمؒ کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی۔ مولانا محمد اسحاقؒ ایبٹ آباد نے موصوف سے دریافت کیا کہ آپ نے قائداعظمؒ کی نماز جنازہ کیوں ادانہیں کی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’مجھے مسلمان حکومت کا کافر وزیر یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھا جائے‘‘۔ قادیانی خلیفہ مرزا محمود نے ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۹ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان نہیں جائیں گے لیکن پاکستان بننے کے بعد چنیوٹ (ضلع جھنگ) کے پاس دریائے چناب کے پار فیصل آباد (اس وقت لالپور) اور سرگودھا کے وسط میں گورنر پنجاب سرفرانسس موڈی سے ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین کوڑیوں کے بھاؤ لے کر ربوہ آباد کیا۔ یکم ؍ اپریل ۱۹۴۹ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن بھی قائم ہو گیا جس کا اسٹیشن ماسٹر ایک احمدی کو بنایا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں نے قادیان سے اپنا ہیڈکوارٹر ربوہ منتقل کردیا حکومت‘ نوکر شاہی اور فوج میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کیا۔ دوسرے ممالک بشمول اسرائیل اور جنوبی افریقا‘ میں اپنے نشرواشاعت کے مرکز قائم کرلیے۔
قادیانیوں کے خلاف تحریک اور جماعت اسلامی کا موقف
۳۰؍ جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسہ عام میں مولانا مودودیؒ نے علماء کی متفقہ تجاویز کی وضاحت کی اور دستوری سفارشات کی خوبیوں اور خامیوں پر سیر حاصل بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ اس دستوری رپورٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اب کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہ بن سکے گا۔ لیکن حکومت نے اس وقت کے اہم ترین مسئلے کو‘ جس کی وجہ سے یہاں معاشرتی فساد برپا ہے‘ یعنی قادیانیوں کے مسئلہ کو پھر نظرانداز کردیا ہے۔ جبکہ تمام علمائے کرام اور تمام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے کہا تھا کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
اس سے پہلے ۲۳؍ جنوری ۱۹۵۳ء کو دینی جماعتوں کا ایک وفد‘ وزیراعظم پاکستان سے ملا تھا اور قادیانیوں کے مسئلے پر انہیں ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے ڈائریکٹ ایکشن کا نوٹس دیا تھا۔ جو اصل میں ایک غیر مجاز وفد کا نوٹس تھا۔ جسے نہ تو علما کے کسی کنونشن یا اجلاس میں اور نہ کراچی علما کانفرنس کی جنرل کونسل کی پندرہ رکنی مجلس نے بنایا تھا۔ ۱۳؍ فروری کو پنجاب کونسل آف ایکشن کا ایک اجلاس لاہور میں ہوا‘ جس میں مولانا مودویؒ نے ملک نصراللہ خان عزیز کے ذریعے ایک تحریری احتجاج پیش کیا کہ: ’’مرکزی مجلس عمل کے فیصلہ کے بغیر ڈائریکٹ ایکشن کا پروگرام خلاف ضابطہ ہے‘‘۔
(جاری ہے)