(پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم

346

نبوت کا دعویٰ
مرزا غلام احمد ۱۸۸۰ء میں ایک مبلغ اور مناظرِ اسلام کی حیثیت سے برعظیم ہندوستان مسلمانوں میں نمودار ہوئے۔ دسمبر ۱۸۸۸ء میں موصوف نے بیعت کے لیے اشتہار دیا اور ۱۸۸۹ء کے آغاز سے بیعت لینی شروع کردی۔ اس وقت مرزا صاحب نے صرف ’’مجدّد وقت‘‘ اور ’’مامور من اللہ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔۱۸۹۱ء میں مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان اور خود مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے سے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ۱۹۰۰ء میں مرزا غلام احمدصاحب کے خاص خاص مریدوں نے موصوف کو صاف صاف لفظوں میں نبی کہنا شروع کردیا اور وہی حیثیت دینی شروع کردی جو قرآن پاک کی رو سے انبیاء علیہم السلام کی ہے۔
۱۹۰۱ء میں مرزا صاحب نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا خود اعلان کیا۔ ۱۹۰۴ء میں مرزا صاحب نے منجملہ اور دعووں کے ایک دعویٰ یہ بھی کیا کہ وہ کرشن ہیں۔ مرزا غلام احمد کا ابتدائی عقیدہ وہی تھا جو تمام مسلمانوں کا ہے یعنی کہ یہ محمد ؐ پر نبوت ختم ہوگئی اور آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ ان کی متعدد کتابوں میں اس کے حوالے موجود ہیں۔ (حمامۃ البشریٰ‘ آفتاب الریہ‘ ازالہ اوہام اور ایام الصلح از مرزا غلام احمد بالترتیب صفحات ۳۴ ‘ ۱۸۴‘ ۵۷۷ اور ص ۱۴۶) بعد میں جب مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کی بھی ایک شکل نہیں تھی: کبھی خود کو اُمی نبی‘ کبھی غیر صاحب شریعت نبی‘ صاحب شریعت نبی‘ ظلّی یا بروزی نبی اور بعد میں قصّہ تمام کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمام انبیاء کا مجموعہ قراردیا ( تتمہّ حقیقۃ الوحی مرزا غلام احمد ص ۸۴)۔
علامہ اقبالؒ‘ پنڈٹ نہرو اور قادیانی
علامہ اقبالؒ نے ۱۹۳۵ء میں قادیانیوں کو ایک الگ امت قرار دیے جانے کا مسئلہ اٹھایا تھا‘ جس طرح انگریزوں نے سکھوں کو ہندو مت کی ایک شاخ ہوتے ہوئے ۱۹۱۹ء میں از خود انہیں ہندوؤں سے الگ قوم قرار دیا گیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے نام‘ جو قادیانیوں کے ایک بڑے بہی خواہ تھے‘ اپنے خط مورخہ ۲۱ ؍جون ۱۹۳۶ء میں لکھا تھا کہ: میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ‘ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ یہ بات یوں بھی پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مرزا غلام احمد اور ان کے خلفاء کے بیانات اور ان کے رسائل و جرائد خصوصاً ’الفضل‘ اور دیگر کتب میں جگہ جگہ انگریزی حکومت سے وفاداری استوا ر کی گئی ہے۔ نیز حکومت انگلشیہ سے ان کے آبا واجداد کی غیر مشروط وفاداری اور تابعداری کی پوری تاریخ ہے۔
علامہ اقبالؒ جو مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کے داعی تھے‘ قادیانیوں کی سازشوں اور انگریزوں سے ان کے گٹھ جوڑ سے اچھی طرح واقف تھے اور ان کی سوچ ایک حقیقی مسلمان مدبر کی سوچ تھی۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۳۳ء سے احمدیت پر اس وقت توجہ دینی شروع کی‘ جب ان کا سابقہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں احمدی حضرات سے پیش آیا۔ انہوں نے قادیانی مذہب کا تفصیل سے مطالعہ کیا اور اسلامی معاشرے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اس جماعت کو مسلمانوں کے اجتماعی وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ: ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور عالم اسلام کے بارے میں ان کے رویے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس فرقے کے بانی نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ اور اپنے مقلدین کو تازہ دودھ سے تشبیہ دی ہے‘ اور اپنے مقلدین کو مسلمانوں سے میل جول رکھنے سے اجتناب‘ عام مسلمانوں کے ساتھ قیام نماز میں عدم شرکت‘ نکا ح وطلاق وغیرہ کے معاملات میں بائیکاٹ اور سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ احمدیوں کے سوا تمام مسلمان کافر ہیں کا اعلان کیا ہے۔ یہ سب ان کی علیحدہ حیثیت کا ثبوت ہیں۔
مولانا مودودیؒ اور قادیانی فتنہ
ہندوستان کے دیگر علمائے کرام نے جس وقت قادیانیت کے مسئلے کا نوٹس لیا‘ اس وقت وہ اپنے مضمرات کی رو سے ایک دینی اور قومی مسئلہ بن چکا تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے مقالات کے ذریعے قادیانیت کی شدید گرفت کی تھی۔ جس پر قادیانیوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی تھی۔
بانی جماعت اسلامی سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قیام پاکستان سے بارہ سال اور جماعت اسلامی کی تاسیس سے چھ سال پہلے اگست ۱۹۳۵ء میں اپنے رسالے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں‘ جو اس وقت حیدر آباد دکن سے نکلتا تھا‘ ’رسائل و مسائل‘ کے عنوان سے ایک اہم خط کے جواب میں لکھا: ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین وکان اللہ بکل شی علیما۔ کلام الٰہی سے یہ بات ثابت ہے کہ محمد ؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں‘ آپؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنا علم الٰہی کی تکذیب ہوگی اور علم الٰہی کی تکذیب کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا‘ جو اللہ کو سچا اور اس کے علم کو حقیقی مانتا ہے۔
(جاری ہے)