تعلیم اور تربیت معاشرے کا ایک جزو لاینفک ہے ۔تمام انسانی تمدن کی بنیادیں تعلیم و تربیت پر ہی ٹکی ہوتی ہیں۔تعلیم و تربیت میں فلسفہ کی جو بھی اہمیت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن نفسیات کے اعتبار سے تعلیم و تربیت کا مقصد انسانوں میں خاطر خواہ مفید تبدیلیوں کو جا گزیں کر نا ہوتا ہے۔بچپن انسانی زندگی کا ایک اہم دورہو تا ہے جہا ں ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ابتدائی عمر میں اگر بہتر تعلیم و تربیت کے مواقع بچوں کو فراہم کئے جائیں تو وہ ایک باوقار اور کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بن جا تے ہیں۔برخلاف اس کے نا قص تعلیم و تربیت،اور غیر صحت مند عادتیں اور مشاغل کی بنا ء بچوں کی زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جا تی ہے اور ان کی کامیابی کے امکانا ت بھی موہوم ہوجا تے ہیں۔
اسکول بچے کی معاشرتی نشوو نما میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل ادارہ ہوتا ہے جہاں بچہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے عادات و اطوار کو نہ صرف قبول کر تا ہے بلکہ یہ وہ مقدس مقام ہے جہا ں مردم سازی کا کام انجام دیا جا تا ہے۔صحت مند عادات و طور طریقوں کی بنیادیں چھ تا بارہ بر س کی عمر میں استوار کی جا تی ہیں۔ اسی لئے اس عمر میں بچوں کو صحت مند ماحول کی فراہمی اشد لازمی تصور کی جاتی ہے۔چھ سے بارہ سال کی نوخیز عمر میں بچوں میں اکثر کاہلی،خودغرضی،نافرمانی،خطرناک شرارتیں،حیلے و بہانے بازی،جیسی عادات کے جڑ پکڑنے کے قوی امکانات پائے جا تے ہیں۔اس عمر میں اکثر بچے اسکول ،جماعت اور محلے کے چند مخصوص ساتھیوں کا انتخاب کر لیتے ہیں اور ان کی صحبت میں طرح طرح کی شرارتوں سے لطف حاصل کر تے ہیں تعلیم کو سخت بوجھ سمجھتے ہیں اور اس سے فرار کا راستہ تلاش کر تے ہیں کیونکہ ان کو پڑھائی میں تکلیف اور کھیل و تفریح میں لذت حا صل ہوتی ہے۔بچپن کی یہ معصوم گروہ بندیا ں بعض اوقات خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہیں اور مجرمانہ افعال کی انجام دہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔اسی لئے والدین خاص طور پر اساتذہ پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ میں گروہ بندی جیسے مہلک عادت کے سدباب کے لئے ان پر کڑی نظر رکھیں اور مناسب تربیت کا اہتمام کر یں۔اساتذہ کو چاہئے کہ وہ درس و تدریس کے علاوہ باضابطہ غیر نصابی سرگرمیوں جیسے کھیل کود ادبی بحث و مباحث کا انعقاد عمل میں لائیں جس سے بچوں میں دوسروں کے افکار و دلائل کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات پیش کر نے اور ان میں مناسب ترمیم و اصلاح کا سلیقہ پیدا ہوگا۔
بچے اس عمر میں کئی ایسی عادتیں سیکھ لیتے ہیں جو اگر غلط راہ پا جائے تو بعد میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔بچہ ہر اس حرکت کو دہرا تا ہے جس سے اس کو لذت حاصل ہو۔لذت کا یہی احساس عادت کی بنیاد بنتا ہے۔اسی لئے اساتذہ کی یہ قوی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسا ما حول فراہم کر یں جن میں بچوں کو اچھا کام کر نے میں خوشی اور ہر بر ی عادت پر کوفت محسوس ہو۔ ماہرین نفسیات نے عادات و جذبات کی عمومی تربیت کے لئے تصعید ،ضبط جذبات اور مصروفیات جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔
تصعیدکسی بھی فطری رجحان کو منفی جذبات سے بلند مقاصد کی جانب مبذول کروانے کا نا م ہے۔مثلا بچے کا غصہ ہونا ایک فطری امر ہے لیکن اس توانائی کو فتنہ و فساد کے بجائے تعمیر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس کو ماہرین نفسیات نے تصعید سے تعبیر کیا ہے ۔اسی طر ح ایک کامیاب اور متوازن زندگی کے لئے بچوں میں ضبط جذبات کی تربیت بہت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔انسانی مصروفیت سے اس کے حال اور مستقبل کا بخوبی اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔جب انسان کو فارغ وقت میسر آتا ہے عموما اس وقت جذبات شور و غوغا مچاتے ہیں۔اسی لئے بچوں کو جذباتی ہیجان یا فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے انہیں فارغ اوقات میں دلچسپ اور تعمیر ی مشاغل میں منہمک رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ایک استاد پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری والدین سے زیادہ عائد ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے نے استاد کو صرف ایک ادنی اقتصادی اور معاشرتی مقام دے کر انتہائی ظلم کیا ہے۔لیکن ایک فرض شناس استاد اپنی زیادتی کا بدلہ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت سے غفلت برت کر نہیں لے سکتا کیونکہ یہ ایک نہایت سنگین اخلاقی جر م ہے۔ بچوں میں وقت کی تنظیم اور قدر شناسی کی عادت کو فروغ دینا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے افعال کو وقت پر انجام دینے کے قابل ہوسکیں نشست و بر خاست کے طریقے سونے جاگنے کی بنیادی جسمانی عادتیں بچے کو زندگی چند مہینوں میں ہی پڑجاتی ہیں آگے صرف ان عادتوں کو مستحکم کر نا ہوتا ہے۔ان امور کی تربیت کے دوران یہ خیال رکھناضروری ہوتا ہے کہ بچے اس تربیت سے کسی قسم کا بوجھ دباؤ یا اکتاہٹ کا شکار نہ ہونے پائیں کیونکہ بچوں کی آئندہ ذہنی اور جسمانی صحت کا انحصار انہی اولین عادات کے مناسب نشوو نما پر منحصر ہوتا ہے۔اگر بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں وقت کی پابندی اساتذہ اور والدین کے نرمی سے سمجھانے کے طریقے اور مناسب کام کو مناسب انداز میں انجام دینے کا رواج ہو تو بچوں کے بر ی عادتوں میں گرفتار ہونے کا اندیشہ بہت کم ہوجاتا ہے۔بہت زیادہ نگرانی ،ہرکام میں بچوں کی بیجا مدد کرنے اور ہر خواہش کو پورا کردینے سے بھی بچوں کی عادتیں خراب ہوجاتی ہیں۔بری عادتوں کی اصلاح کا مناسب وقت بچپن ہی کا زمانہ ہے عادت اگرپختہ ہوجائے تو اس کا چھو ڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اسی لئے بہت احتیاط برتنی چاہئے کہ بچے اچھی عادتیں سکھیں اگر وہ بری عادتوں کے چنگل میں پھنس بھی جا ئیں تو اصلاحی فرائض سے غفلت یا اصلاح کے غلط طریقے اختیار کر نے کے بجائے پیار و محبت سے بچوں کو سمجھانا چاہیئے۔عادات میں جب حسن پیدا ہوتا ہے تو زندگی میں رفتہ رفتہ اعتدال آتا ہے توازن کی منزل ملتی ہے مقصد حیات سے آشنائی ہوجاتی ہے مقصد سے آشنائی منزل کا شعور ہی نہیں بخشتی ہے بلکہ منزل تک پہنچا بھی دیتی ہے۔درحقیقت عادات و اطوار ہی وہ قوت ہیں جو تقدیر کے سربستہ راز کو منکشف کر سکتے ہیں اور زندگی کے لمحہء گزراں کو ابدیت عطاکر سکتے ہیں۔
اساتذہ صرف طلبہ کی تعلیمی اکتساب کی منصوبہ بندی پر اکتفاء نہ کریں بلکہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ان میں ایسی عادتوں اور استعداددوں کو فروغ دیں جو ان کے مستقبل میں مدد گار ثابت ہوں۔ صحت مند عادات کی استواری سے نہ صرف تعلیمی اور اکتسابی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکتاہے بلکہ بچوں میں نا مساعد حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔انسان فطری طور پر مختلف عادتوں کا خوگر ہوتا ہے اور جب آدمی کسی بھی کام کو مسلسل انجام دیتا ہے تو وہ کام اس کے لئے بہت ہی آسان اور سہل ہوجاتا ہے جسے کر نے سے اس کو دقت اور پریشانی کے بجائے ایک گوناگوں خوشی اور آسودگی حا صل ہوتی ہے۔کسی کام کو لگاتار کرتے رہنے سے انسان کے لئے اس کام کو کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ اچھی عادتوں کی تشکیل کے ذریعہ انسان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں تعلیم کا بنیادی وصف بھی یہی ہے کہ طلبہ میں پسندیدہ اور اچھی عادتوں کو فروغ دیا جا ئے جو ان کی زندگی کو خوش گوار اور آرام دہ بنادے۔عادتیں وہ شعوری فیصلوں اور افعال کے مجموعہ کا نام ہے جو ایک دوسرے سے باہم مل کر انسانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ آسودگی وہ بنیادی عنصر ہے جو عادت کو زندگی کا جزولاینفک بنادیتا ہے۔ مضر نا پسندیدہ نقصاندہ عادتوں کو لگاتار سعی و کاوش کے ذریعہ تبدیل کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعہ زندگی معتبر اور با مقصد اور با وقار انداز میں بسر کی جا سکتی ہے۔مدرسہ وہ ادارہ ہوتا ہے جہاں طلباء کو ان کی آنیوالی زندگی سے روشناس کروانے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ ان سنگ بستہ عمارات میں اساتذہ کے دم سے زندگی دوڑتی پھرتی نظر آتی ہے ۔جہاں صرف لفظیات شناسی کا کام انجام دیا جا تا ہے اس کو مدرسہ نہیں کہا جاسکتاہے ۔مدرسہ تو طلباء کو علم سے بہرور کر نے کے علاوہ تعلیم و تربیت کے جو ہر سے متصف کر تے والا ادارہ ہوتا ہے جو ادارہ یہ اوصاف اپنے میں نہیں رکھتا وہ مدرسہ کہلانے کاحق بھی نہیں رکھتا ۔
مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر نے کے اہل نہیں ہوتے اور ان کو اچھائی اور برائی کا بھی علم نہیں ہوتا ہے۔ اساتذہ طلبہ کو اچھائی اور برائی میں امتیاز کر نے کے لائق بناتے ہیں دراصل یہی خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت کردار کی کسوٹی قرار پاتی ہے۔ در حقیقت کردار مجموعی طورپر عادتوں کے مجموعہ کا نام ہے انسان میں اچھی اور بر ی ددنوں بھی عادتیں پائی جا تی ہیں۔ اچھے کردار کے معنی یہ نہیں ہے کہ بری عادتیں انسان میں مفقود ہوگئی ہیں یا بالکل معدوم ہوچکی ہیں بلکہ بر ی عادتوں پر اچھی عادتوں کے غلبہ کو بہتر کردار سے تعبیر کیا جا تا ہے۔اساتذہ کا کام طلبہ کی تعلیمی منصوبہ بندی کے علاوہ اچھی عادتوں کی تشکیل کے لئے اساس فراہم کر نا بھی ہو تا ہے۔طلبہ میں اکثر عادتیں اور برتاؤ کی تبدیلی کا موجب صحبت اور ماحول ہو تا ہے۔ ایک لائق استاد ان عناصر کا علم رکھتے ہوئے اسکول میں پسندیدہ ما حول جو کہ اچھی عادات کے فروغ میں ممدو معاون ہو فراہم کر ے اور ایسے ما حول کے لئے ساز گار فضاء ہموار کر ے تا کہ طلبہ میں اچھی پسندیدہ عادتوں کی تشکیل انجام پائے اور وہ اپنی زندگی با وقار انداز میں گزارنے کے قابل بن سکے۔
طلبہ میں پا ئے جا نے والی اچھی عادتوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کو پائیدار بنانے کے لئے Habit fostering strategies کو بروئے کار لانا اشد ضروری ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر عادتیں بچپن میں بنتی ہیں اسی لئے اسکول اور اساتذہ کے کندھوں پر اہم ذمہ داری عا ئد ہو تی ہے کہ وہ طلبہ میں اچھی عادتوں کی تشکیل اورفروغ میں مددگار بنیں۔اساتذہ پر بچوں میں اچھی عادت سازی کی ذمہ داری اس لئے بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ
( 1)طلبہ پسندیدہ اور غیر پسندیدہ عادتوں کے درمیان تمیزی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
(2)طلبہ اچھی عادتوں کی آگہی نہیں رکھتے اور عادتوں کے فروغ کے عمل سے بھی نا واقف ہوتے ہیں۔
(3)طلبہ عادات کی تشکیل اور اس کے فروغ کی مہارتوں سے بھی نا واقف ہوتے ہیں اسی لئے ان امور میں اساتذہ کی رہبری رہنمائی اور تربیت طلباء کے لئے ایک نعمت کا درجہ رکھتی ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کی اہمیت و عظمت اور بڑھ جا تی ہے۔
ٍ طلبہ میں عادتوں کی تشکیل اور فروغ کے لئے اساتذہ کو صبر و استقلال سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔عادتیں کیسے تشکیل پا تی ہیں اور بری عادتوں سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے اور پسندیدہ عادتوں کو کس طرح سے فروغ دیا جا سکتاہے ان علوم اور مہارتوں سے اساتذہ کا متصف ہوناضروری ہو تا ہے تاکہ طلبہ کی رہبری و رہنمائی کے فرائض وہ بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔اچھی اور پسندیدہ عادتوں کو اپنانے سے طلبہ کی شخصیت نکھر جا تی ہے۔اور ان کی کامیابی کا فیصدبڑھ جاتا ہے۔طلبہ کا برتاؤ عادتوں کے بننے میں مددگار ہوتا ہے ۔پسندیدہ عادتوں کے فروغ کے لئے در سی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ عادات سازی کی منصوبہ بندی بھی اساتذہ کے لئے لازمی ہوتی ہے ۔بعض عادتیں ابتدائی مراحل میں مخفی رہتی ہیں لیکن جب تک وہ ظاہر ہوتی ہیں تب تک وہ راسخ ہو جاتی ہیں اور اس کا علم بھی جب ہوتا ہے جب یہ جڑ پکڑ لیتی ہے۔غیر پسندیدہ برتاؤ یا عادت کی تبدیلی کے لئے طلبہ میں اندورنی محرکہ پیدا کرنا لازمی ہو تا ہے اسی وجہ سے استاد کاطلبہ باہمی تال میل، دلچسپی، طریقہ کار اور مثبت رہنمائی طلبہ کی ذہن سازی اور کردار سازی میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں۔ طلبہ کو مناسب ماحول و مواقع فراہم کیئے بغیر صرف خراب اور بری عادتوں کے متعلق اطلاعات فراہم کر نا بے سود ہوتا ہے۔ بر ی عادتوں کی تبدیلی کے لئے سازگار ماحول اور عملی تربیت لازمی ہوتی ہے۔پسندیدہ اور اچھی عادتوں کو اس طرح سے جمایا جا ئے کہ بر ی عادتیں اپنے آپ ہی طلبہ سے رخصت ہوجائے۔اساتذہ اچھی عادتوں کی عملی تربیت کو دلچسپ اور آسان بنائیں تا کہ طلبہ بر ی عادتوں میں دلچسپی لینے اور ان کو اپنانے میں بے چینی و اضطراب محسوس کریں۔ایک استاد اپنی حکمت عملی کے ذریعہ کئی بری عادتوں کو باآسانی طلبہ کی ذات سے نکال پھینکنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ جذبات پر عدم قابو ناقص رہنمائی اور خراب ماحول وغیرہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے طلباء میں خراب اور نا پسندیدہ عادتیں قائم ہوجاتی ہیں ۔
زندگی کے لئے سود مند عادات کو طلبہ کے ذہنوں میں پیوست کر نے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں فکر و تدبر (سوچنے کی صلاحیت) ،تجزیہ نگاری،اچھی سماعت اور خود کار مطالعہ کی عادت کو فروغ دیں ۔یہ اوصاف طلبہ کی نہ صرف تعلیمی کارکردگی کوپر اثر بنائیں گے بلکہ ان میں خود انضباط (Selfdisciplin) کی کیفیت اپنے آپ پیداہوجائے گی۔طلبہ کی ترقی،صحت ،مہارت اور سکون و اطمینان فی الحققیت وقت کے ساتھ ساتھ قائم ہونے والی عادات پر منحصر ہوتا ہے۔عادتیں شخصیت کی غماز ہوتی ہیں اسی لئے اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ عادتوں کی تشکیل اور اس کے اپنانے میں طلباء میں لازمی شعور پیدا کریں تاکہ طلبہ کی شخصیت مجروح نہ ہوں اور وہ ملک و قوم کے لئے ایک بوجھ نہ بن پائیں۔
اہم بلاگز
درسگاہیں بنیں تھیٹر
سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔
ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔
ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔
چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔
پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔
اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ "دیوث" کو عملاً سمجھ لیا۔
ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ...
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...