ہمیں خود سے عہد کرنا ہوگا

کیا آپ بدر اوّل سے واقف ہیں؟  کیا آپ جانتے ہیں کہ کم و بیش تین دہائیاں قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبا نے شمسی توانائی سے چلنے والی کار بنا لی تھی؟ کیا آپ اس بات پر یقین کرلیں گے کہ زیادہ عرصہ نہیں صرف دو دہائی قبل تک چائنہ، لیبیا، فلسطین، سوڈان اور کئی ممالک سے پیشہ ور لوگ اور طالب علم پاکستان کی فیکٹریوں اور اداروں میں اپرنٹس شپ کیلئے آیا کرتے تھے؟ کیا آپ اس بات پر یقین کرینگے کہ دنیا کے کئی ممالک کے میڈکل کے طالب علم پاکستان کے میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں میں تعلیم حاصل کرکے اپنے وطن جاکر فخر سے بتاتے تھے کہ وہ پاکستان سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب پاکستانی چاول مڈل ایسٹ کے راستے دنیا کے مختلف ممالک میں جاتا تھا اور کئی ممالک اس اعلیٰ کوالٹی کے چاول کی پیکنگ بدل کر اس کو اپنے ملک کا چاول بتا کر بیچا کرتے تھے۔

یہ جتنی باتیں میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں یہ کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ہے، کوئی جاگتی آنکھوں کا خواب نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ اسی وطن میں ہوا ہے۔ جب وطن عزیزتعلیم و ٹیکنالوجی میں دنیا کے کئی ممالک سے آگے تھا، ہمارا روپیہ دنیا کی مضبوط اور مستحکم کرنسیوں میں سے ایک تھا۔ میڈیکل کے طالب علم پاکستان آکر تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے تھے۔ دوا ساز کمپنیوں میں کئی ممالک کے طالب علم عملی تربیت کیلئے آتے تھے اور یہاں سے علم حاصل کرکے اپنے وطن کی خدمت کرتے تھے۔پاکستان نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ بدر او ل کے نام سے 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔ شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی برسوں پہلے این ای ڈی کے طلبا نے تیار کی تھی ۔پاکستا ن کو کسی وقت دنیا کے سستے اور پر امن ممالک میں شمار کیاجاتا تھا۔ دنیا ( بشمول یورپ ) کے سیاح یہاں آتے تھے۔ و ہ بھی ایک وقت تھا کہ سابق سوویت یونین کے لوگ یہاں آتے تھے تو سستے اور وافر مقدار میں پھل دیکھ کر رشک کیا کرتے تھے۔

آج ہم اپنا 76واں جشنِ آزادی منارہے ہیں۔اس موقع پر میں چاہوں تو بہت دل خوش کن باتیں کرسکتا ہوں، جذباتی نعرے لگا سکتا ہو ں اور سنہرے ماضی کی یادوں میں کھو کر آپ کو بھی چند لمحو ں کیلئے موجودہ تکلیف دہ حال اور مخدوش مستقبل سے بے نیاز کرسکتا ہوں۔ لیکن میں یہ کر نہیں سکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی کی یادوں میں نہ کھو جائیں۔ بقول شخصے پدرم سلطان بود بلکہ ہمیں اپنا جائزہ لینے کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 76 برسو ں میں ہم نے ترقی ٔ معکوس کا سفر طے کیا ہے۔ ہم آگے جانے کی بجائے سمت مخالف میں بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں۔ہر شعبے میں ہم کمال کی بجائے زوال کی جانب گامزن ہیں خواہ وہ معیشت ہو، تعلیم ہو، سیاست ہو، کھیل ہو یا معاشرت، کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں ہم پیچھے کی طرف گئے ہوں۔

کھیلوں کی بات کرتے ہیں تو ایک وقت تھا کہ کھیلوں کی دنیا میں ہمارے نام کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے دورہ انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز 1۔1 سے برابر کی تھی جس میں اوول کے تاریخی میدان میں یادگار فتح بھی شامل ہے۔ اسکواش کے کورٹ میں تین دہائیوں تک ہمارا مد مقابل کوئی نہ تھا، ہاکی کے میدانوں میں ہمارے کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟

معیشت کی بات کریں تو ایک وقت تھا کہ پاکستانی روپیہ دنیا کی مضبوط اور مستحکم کرنسیوں میں سے ایک تھا۔1947 سے 1955 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 3.31 روپے تھی۔ 1956 میں ڈالر 85 پیسے اضافے کے بعد 4.76 روپے کا ہوا،لیکن اس کے بعد1971تک 16 برس تک روپے کی قیمت مستحکم رہی۔ 1971 کی جنگ کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت میں اچانک سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہونے کے باعث ڈالر 11.01 تک پہنچ گیا، 1973 میں روپے کی قدر ایک بار پھر بڑھی اور ڈالر 9.99 روپے کا ہوگیا۔اس کے بعد 9 برسو ںتک ڈالر کی قیمت یہی رہی لیکن 1982 کے بعد جب روپے کی قدر گرنا شروع ہوئ تو پھر رپیہ سنبھل نہ سکا اور آج تک زوال کا شکار ہے۔ آج انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال وغیر ہ تو دور کی بات افغانی کرنسی بھی ہم سے زیادہ مضبوط ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ ترقی معکوس کا یہ سفر رکتا کیوں نہیں ؟ ہم درست سمت میں سفر شروع کیوں نہیں کرپارہے؟ کیا وجہ ہے کہ آج ہم ہر شعبہ زندگی میں زوال کا شکار ہیں حتیٰ کہ سماجی رویوں اور اخلاقی معاملات میں بھی ہم گراوٹ کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ اس کا جواب ڈھونڈنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ہم صرف تھوڑا سا خلوصِ نیت کے ساتھ اپنا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج پستی کی اس انتہا تک ہمیں کسی اور نے نہیں بلکہ خود ہمارے اپنے ہی لوگوں اور ہمارے اپنے ہی رویوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔

سیاست دان سوائے ایک دوسرےکی ٹانگیں گھسیٹنے اور ذاتی مفادات سمیٹنے کے اور کوئی کام نہیں کررہے۔ ایک مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ طبقہ اشرافیہ کی عیاشیوں ، مفادات کی جنگ، کرپشن اور قانون کی جوتے کی نوک پر رکھنے کی روش رفتہ رفتہ عوام میں بھی در آئی۔ پہلے صرف طبقہ اشرافیہ کرپشن اور قانون شکنی میں ملوث ہوتا تھا، پھر یہ سوچ اکثر حکومتی محکموں میں پروان چڑھی اور پھر عوام نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ جہاں اور جیسے بھی ممکن ہو، صرف اپنا مفاد دیکھا جائے اور باقی چیزوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ پاکستان میں مقتدرطبقوں کی شاہ خرچیوں کایہ حال ہے کہ ملک آئی ایم ایف کے مقروض ہے مگر اس مقروض ملک میں 90ہزار گاڑیاں ،220ارب کا مفت پیٹرول اور 550ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی افسران کو دی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کی حکومتی خرچے پرشاہ خرچیاں اسے بھی زیادہ ہوش ربا ہیں ۔ ذاتی مفادات کے باعث عوام حقیقی نمائندوں کوبھی منتخب کرنے کی بجائے انہی مفاد پرستوں کو دوبارہ موقع دیتے ہیں کہ ان کے ذریعےسے اپنے مفادت حاصل ہوسکیں۔ ہر شعبہ زندگی میں میرٹ کی بجائے سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے، سفارش اور پیسے کے بل پر نوکری یا اقتدا ر حاصل کرنے والا نا اہل فرد ملک و قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ مستقبل کی جانب نہیں اٹھتی، وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ہمیںیہ روش بدلنا ہوگی بصورت دیگر حالات مزید بدترہوسکتے ہیں۔

یہ بات حقیقت ہے کہ قائداعظم اور دیگراکابرین نے انتھک جدوجہد کے بعدمملکت حاصل کی۔ اس کی بنیادوں میں لاکھوں مردوں، خواتین، بزرگوں اوربچوں کاخون شامل ہے۔14 اگست 1947 کہ جس دن دنیا کے نقشہ پر ایک نیا وطن بنام اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔ محض ایک تبدیلی یا تقسیم ہند نہ تھی بلکہ اس ایک دن کے قیام کی خاطر اسلامیان برصغیر نے سو سال سے زیادہ عرصہ تک جبر و استبداد، ظلم و ستم،سامراجی تہذیب و ثقافت نظریات اور عیار و مکار دشمن کے مد مقابل سر فروشی، جواں مردی، استقامت اور اسلامی اقدار کے تحفظ و بقا کے علاوہ جذبہ حریت کا پرچم سر بلند رکھنے والے شہیدوں کے لہو سے روشن وہ عہد ساز دن تھا۔ جب ہمارے آباؤ اجداد نے انگریز کی تاریک راہوں سے نکل کر نور ایمان سے منور شاہراہ اسلام پر گامزن رہنے اور مملکت میں اسلام کو بطور دین و دستور نافذ العمل کرنے کا عزم صمیم کیا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور یہاں کا دستور اور نظام بھی اسلامی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان کے وقت ہی دوٹوک الفاظ میں متعدد مرتبہ اپنی تقاریر میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کا نظام اسلامی ہوگا۔ یوم آزدی کا دن ان لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جو تاریک راہوں میں شہید کر دیے گئے یا تقسیم کے ہنگاموں میں ہجرت کے دوران ظالم ہندوؤں کی سنگینوں کی خون کی پیاس بجھاتے رہے۔ پاکستان کا قیام اور اس کی جدوجہد ایک عظیم جدوجہد تھی تو اس سے بڑی جدوجہد اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنا ہے۔

ہمارے بزرگوں نے تو لازوال قربانیاںدے کر ہمیں آزادوطن دلوادیا مگر آزادی کے تقاضے ہمیں پورے کرناہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کی سعی کرنا ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس جشنِ آزادی پر یہ عہد کریں کہ وطنِ عزیز کو دوبارہ مستحکم اور عالی شان اسلامی مملکت بنانے کے لیےانتھک کام کریں۔ دیانت دار قیادت کاانتخاب کریں۔ محض جذباتی نعرو ں اور باتوں سے کام چلانے کی بجائے عملی اقدامات کریں تاکہ ہماراشمار بھی ترقی یافتہ، مستحکم اور خوشحال قوموں میں ہونے لگے۔