صبر کا گھونٹ

عبدالشکور صاحب کے گھر بڑی گہما گہمی تھی ہر طرف عبدالواجد کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ساتھ ہی تسنیم بیگم کی طرف سے سب گھر والے فکر مند بھی تھے کیونکہ ان کی طبیعت کافی ناساز تھی انھیں ڈاکٹر نے چیسٹ انفیکشن بتایا تھا جس کا علاج چل رہا تھا بہرحال شادی بخیر و عافیت انجام پائی اور سب بڑی اچھی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ عبدالشکور صاحب اور تسنیم بیگم کے پانچ بچے تھے ۔ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ عبدالواجد بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے پھر زبیدہ ، سعیدہ ، شہنیلہ اور سب سے چھوٹی نائلہ،..!

سعیدہ کی شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی بسر کررہی تھی ۔ عبدالواجد کی شادی کو ابھی تین ماہ ہی گزرے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔۔۔۔

11 اگست کا دن تھا صبح کے پانچ بج رہے تھے ہر طرف سے فجر کی اذانوں کی گونج سے فضا مہک رہی تھی سب گھر والے سو رہے تھے نائلہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی کہ اچانک گیلری میں کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک زبیدہ اور شہنیلا کی آنکھ کھل گئی۔۔۔

زبیدہ نے اٹھ کر دروازے سے باہر دیکھا تو اسے کوئی نظر نہ آیا شہنیلہ نے بھی زبیدہ کے ساتھ دیکھا جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دونوں واپس لیٹ گئیں جیسے ہی دونوں لیٹی چند لمحوں بعد اچانک سے ڈرائنگ روم کے گرل والے دروازے کا کنڈا تالے سمیت توڑ کر پانچ ڈاکو اندر داخل ہوگئے اور سارے پردے ٹھیک کرنے لگے اور ساری لائٹیں جلا دی زبیدہ نے فورا بھاگ کر چور چور ، ڈاکو ڈاکو اور بچاؤ بچاؤ کا شور مچاتے ہوئے بھائی کے دروازے پر زور زور سے دستک دی ڈاکوؤں نے زبیدہ کو پکڑ کر واپس بٹھا دیا اس شور سے تسنیم بیگم اور عبدالشکور صاحب کی بھی آنکھ کھل گئی سب کو ڈاکوؤں نے ایک جگہ لاکر ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا عبدالواجد اور ان کی بیگم کمرے سے نکلے تو دیکھا کہ ڈاکو گھر میں گھس آئے ۔۔۔ وہ ایک ڈاکو کو پکڑنے لگے تو اس نے عبدالواجد کی کمر پر پستول کا بٹ مارا، تسنیم بیگم فوراً چلائیں کہ بھائی صاحب آپ کو جو چاہیے لے جائیں مگر میرے بچوں کو کچھ مت کہیں۔ ڈاکوؤں نے ان دونوں کو بھی سب کے ساتھ بٹھا کر اوپر سے چادر ڈال دی اور بولے سب خاموشی سے بیٹھے رہو آپ ہماری بہنیں ہو۔۔۔۔ شہنیلا بولی کہ بہنیں بھی کہتے ہو اور بہنوں کے گھر میں ڈاکہ بھی ڈال رہے ہو ‘ اس پر ایک ڈاکو بولا خاموش ہو جاؤ۔۔۔

اب سب خاموش بیٹھے گھر لٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سب کی نظریں اس کمرے کی طرف تھی جس کے غسل خانے میں نائلہ وضو کر رہی تھی وہ شور سن کر اندر ہی رہ گئی تھی اور باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک جب سب ڈاکو اس کمرے سے ادھر ادھر ہوئے تو نائلہ خاموشی سے غسل خانے سے پٹڑا اٹھا لائی اور کمرے کے دروازے کے پیچھے چھپ گئی اسی دوران ایک ڈاکو اس کمرے میں جیسے ہی داخل ہوا نائلہ نے پٹڑا اس کی پستول والے ہاتھ پر دے مارا لیکن پستول کی گرفت مضبوط تھی گری نہیں ، اس ڈاکو نے وہی گھما کر نائلہ کے سر پر دے مارا باقی سب دم سادھے دیکھ رہے تھے کہ تسنیم بیگم پھر چلائیں دیکھیے یہ سب سے چھوٹی ہے اسے نہیں معلوم ناسمجھ ہے اسے کچھ مت کہیں ‘ ڈاکوؤں نے نائلہ کو بھی سب کے ساتھ بٹھا دیا اب ذرا سب کی جان میں جان آئی کہ سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھے تھے۔

ایک ڈاکو دراز کھولنے لگا جس میں قرآن پاک رکھے ہوئے تھے شہنیلا پھر بولی کہ ہمارے گھر میں سب سے قیمتی چیز یہی ہے اسے بھی لے جاؤ تو پھر ایک ڈاکو بولا خاموش ہو جاؤ ورنہ۔۔۔۔

تسنیم بیگم پھر بولی اور شہنیلا کو خاموش کروا دیا۔

اب تو جیسے ڈاکوؤں نے پورا گھر ادھیڑ ڈالا کوئی الماری سے قیمتی کپڑے نکال رہا ہے تو کوئی پرس سے ساری جمع پونجی سمیٹنے میں مصروف ہے دو ڈاکو مسلسل گھر والوں کی نگرانی پر مامور تھے جب پورے گھر کا صفایا کر چکے تو سب گھر والوں کو عبدالواجد کے کمرے میں بند کرکے تمام ڈاکو چھت سے بھاگ نکلے۔

ڈاکوؤں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد سب نے مل کر دروازہ کھولنے کی کوششیں شروع کر دیں بہرحال کوشش رنگ لائی اور دروازہ کھل گیا جیسے بند پنجرے کے پنچھی کی طرح سب باہر نکلے اور شکر ادا کیا کہ سب کی عزتیں محفوظ رہیں۔

سب خوف کے مارے لرز رہے تھے کہ کہیں دوبارہ نہ آجائیں کچھ دیر بعد محلے والوں کو معلوم ہوا تو آہستہ آہستہ سب گھر آنے لگے آگے والی گلی میں ایک خاتون رہتی تھی جو گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھی ( ان سے عبدالشکور صاحب کے گھر والوں کی کافی اچھی سلام دعا تھی )اللہ ان کا بھلا کرے وہ سب گھر والوں کے لئے ناشتہ بنا کر لائیں کیوں کہ ڈاکوؤں نے ایک ڈھیلا تک نہ چھوڑا تھا کہ ایک ٹافی ہی آ جائے۔

پندرہ دن تک سب کے ہوش اڑے رہے سب گھر والے جاگتے اور کوئی ایک سوتا۔

پولیس آئی سارے گھر کا معائنہ کیا اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ کسی بھیدی کا کام ہے اور پھر بس کیا تھا تقریبا دو تین ماہ تک گھر والے اپنے جوتے گھساتے رہے اور سراغ تھا کہ ملنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

یہ ہے ہماری پولیس اگلے روز اخبار میں خبر بھی شائع ہوئی کہ پانچ جگہ ڈکیتی ہوئی۔ اور تو اور جو جوتوں کے نشان گھر کے آس پاس پائے گئے وہی تھانے کے باہر بھی دکھائی دیے اور بس پھر کیا تھا عبدالشکور صاحب کے گھر والے صبر کا گھونٹ پی کر بیٹھ گئے اور آج تک ان ڈاکوؤں کی کوئی خبر نہ ملی۔