سیلاب، امداد اور عزتِ نفس

جب بھی ہمیں کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے ہم اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ اے پروردگار تو ہم پر رحم فرما! یہ ضروری نہیں کہ ہم محفوظ مقامات پر بیٹھے ہیں تو ہم کسی مصیبت ،کسی ناگہانی آفت کی لپیٹ میں نہیں آسکتے ۔کچھ لوگوں کے لیے ہر بات مذاق ہوتی ہے اس لیے دوسروں کو بھی اس کا نشانہ بناتے ہیں ۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا، تو اب انہیں خبر ہوا چاہتی ہے اس چیز کی جس پر ہنس رہے تھے سورہ الانعام۔ آیت (5)۔

گذشتہ دنوں ایک ویڈیوز نظر سے گزری ۔کچھ گلوگار سیلاب زدگان کے خیموں میں پہنچ گئے اور گانے سناکراور ڈانس کرکے ان کا غم دور کرنے کی کوشش کررہے تھے کیا اس موقع پر یہ سب کرنا چاہیے یا اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالی تیرا لاکھ شکر ہے کہ آپ نے پھر سے ہمیں ایک نئی زندگی بخشی۔

ارشادِ ربانی ہے ’’ اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو اس کی طرف توبہ کروتو وہ تمھیں ایک مقرر مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا اور فضلیت والے کو اپنا فضل عطا فرمائے گا اوراگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کرتا ہوں۔ ـ سورہ ہود (آیت ۳)۔

ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ پریشان ہیں مگر کچھ لوگوں کی روٹین اب بھی تبدیل نہیں ہوئی ،ویڈیوز بنانا، اپ لوڈ کرنا معمول بن چکا ہے ۔بہت سی این جی اوز سے وابستہ خواتین و حضرات اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔جو ایک خوش آئند بات ہے لیکن ہماری خودنمائی کی ایک ایسی عادت بن چکی ہے کہ ہم آٹے کا ایک تھیلہ اور پانی کی ایک بوتل دیتے وقت بھی ویڈیو بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنانہیں بھولتے ۔سیلاب زدگان کی مدد ایک اچھا عمل ہے ،اللہ کی رضا کیلئے یہ سب ضرور کیجیے مگر خدارا ان بے بس و مجبور لوگوں کی عزتِ نفس کے ساتھ نہ کھلیں ۔خدا کو یہ نمائشی عمل سخت ناپسند ہے کہ آپ دوسروں کی عزتِ نفس کا تماشہ لگا ئیں۔

اس وقت جن لوگوں کے گھر ٹوٹ گئے ہیں، بچے بچھڑ گئے ہیں۔ سوچئیے! ساری زندگی کی جمع پونجی گھر بار سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہو چکاہے، وہ کس قدر بے بس اور لاچار ہیں اس وقت کھلے آسمان کے نیچے وہ بناء بستر کے زمین پر سونے پر مجبور ہیں ۔وہ اس وقت کس قدر بے بسی کے عالم میں ہوں گے۔ کیا کوئی اس کا اندازہ لگا سکتا ہے ؟

کھڑی دیکھی کبھی ہے بے بسی دروازے سے لگ کر

سسکتی دم توڑتی مرتی ہوئی تم نے ۔۔۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا’’کسی کی تباہ حالی پر خوش نہ ہو ،خبر نہیں کل زمانہ تمہارے ساتھ بھی یہی برتاؤ کرے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ برسایا اور نہریں بنا دیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں پھر ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا اور ان کے بعد اور امتیں پیدا کر دیں (سورہ الانعام: آیت:6)۔

سورہ الزمر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’(کیا کافر بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو، آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو، کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں ۔کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو ان کے لیے جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے، اچھا بدلہ ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے ۔بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔کہہ دو مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت کو اْس کے لیے خاص رکھوں اور مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلا فرمانبردار بنوں ۔کہہ دو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں اگر اپنے ربّ کی نافرمانی کروں کہہ دو میں خالص اللہ ہی کی اطاعت کرتے ہوئے اْس کی عبادت کر تا ہوں ۔ پھر تم اْس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۔کہہ دو خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے جان اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارہ میں ڈال دیا۔ یاد رکھو! یہ صریح خسارہ ہے اِن کے اوپر بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور اْن کے نیچے بھی سائبان ہوں گے۔ یہی بات ہے جس کا ا للہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو ‘‘۔

کچھ لوگ سیلاب زدگان کی امدد کا کہہ کر پیسے اکٹھے کرتے ہیں لیکن ان تک امداد پہنچائی نہیں جاتی ۔بدقسمتی سے یہ ہمارے سماجی کردار کا حصہ بن چکا ہے بلکہ حکومتی سطح پر بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کے لیے سخت اقدامات کریں تاکہ ضرورت مند لوگوں تک زیادہ سے زیادہ امداد پہنچ سکے۔

حکومت اور سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ فی الحال سیاست ترک کر دیں اور فوٹو شوٹ ذرا کم کریں ۔غریب عوام کے پاس عزتِ نفس کے سوا کچھ نہیں ہوتا جبکہ بعض لوگ ان کی عزت کا یوں سرِ عامِ تماشہ لگانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔یہ لوگ خدا کا کچھ خوف کریں اور سیلاب زدگان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں ۔ملک بھر میں بہت سے ایسے پسماندہ علاقے بھی ہیں جہاں اب تک کسی این جی او نے رُخ نہیں کیا ۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے تمام علاقوں کا سروے کرے اور ان تک جلد از جلد امداد پہنچائی جائے۔

قوم ایک درد ناک عذاب سے گزررہی ہے ہمیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور استغفار کی کثرت کرنی چاہیے تاکہ ہم مزید کسی عذاب سے بچ سکیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں ہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔وہ معلومات کا علمبردار بھی ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لیے اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کر کے ہی انسان بُرے انجام سے بچ سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔