دور جدید میں ماہ رمضان ! لمحہ فکریہ

لفظ رَمْضان  میم کے سکون کے ساتھ ہم غلط استعمال کرتے ہیں۔ صحیح لفظ  رَمَضان  میم کے زبر کے ساتھ ہے۔ اور رمضان کے لوگوں نے بہت سے معنی بیان کئے ہیں۔ لیکن اصل عربی زبان میں رمضان کے معنی ہیں جھلسا دینے والا اور جلا دینے والا ، علماء نے فرمایا کہ اس ماہ کو رمضان  اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے فضل و کرم سے بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں اور جلا دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ مقرر فرمایا۔

رمضان المبارک تمام مہینوں میں سب سے افضل مہینہ ہے۔ یہ برکتوں، رحمتوں اور نعمتوں والا مہینہ ہے۔ حضور اکرم ﷺنے اس مہینے کی بہت ساری فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ دراصل رمضان کے مہینے میں انسان کے اندر دینی مزاج اور صبرو تقویٰ پیدا کرنے کے لئے مخصوص دینی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس ماہ کو نیکیوں کی فصل بہار قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کو اللہ پاک نے اپنا مہینہ کہا ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق حصہ پاتا ہے۔

رمضان و قرآن میں گہرا باہمی ربط و تعلق پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.

(القرآن، البقرة‘ 2:185)  رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo القدر، 97 : 3 ، شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.

بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3 : 1194، رقم : 3103

جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔

امام غزالیؒ مقاصد صوم رمضان یوں تحریر فرماتے ہیں: روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰیہ میں سے ایک اخلاق کا پر تو اپنے اندر پیدا کرے، جس کو صمدیت کہتے ہیں، وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے، خواہشات سے دست کش ہوجائے، اس لیے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے، نیز خواہشات کے مقابلہ کے لیے اس کو عقل و تمیز کی روشنی عطا کی گئی ہے، البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں، اس کو ان سے آزاد ہونے کے لیے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، چناں چہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے، تو اسفل سافلین تک جا پہنچتا ہے، اور جانوروں کے ریوڑ سے جا ملتا ہے، اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے، تو اعلیٰ علیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہنچ جاتا ہے۔ (احیاء العلوم )

گویا اس مقدس اور مبارک مہینے کی ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہو کر نامہ اعمال میں بطور عبادت لکھ دی جاتی ہے۔اب جدید دور میں ماہ رمضان کے حوالے سے بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔دور جدید میں رمضان میں سب سے زیادہ جو افسوس کا مقام ہوتا ہے وہ دکھاوا ہے جو ہر اعمال پر کیا جاتا ہے۔روزہ ایسی عبادت ہے کہ جب تک اس کا اظہار نہ کیا جائے، ریا ممکن نہیں تبھی اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:

الصوم لی و انا اجزی بہ

ایک فانی زندگی کے لئے انسانوں کی یہ تگ و دو اور دنیا طلبی میں اس قدر مصروف ہونا کہ اسے اپنی ابدی زندگی تک کا علم نہیں۔ کہ خواہشات کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ زکوة دینے اور دوسروے نیک اعمال میں دکھاوا عروج پر ہوتا ہے۔ افطاریاں ضرورت مندوں کو کروانے کی بجائے اپنے سٹیٹس کے لوگوں میں کروائی جاتی ہیں۔اگر قدیم اور جدید دور کے ماہ رمضان کا موازنہ کیا جائے تو بہت کچھ بدل چکا ہے جدید دور میں سب قدیم دور کے برعکس ہے۔ ضرورت مندوں کی مدد محض دکھاوے اور اپنے سٹیٹس کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ ہم روزے رکھ کر بھی بد اعمال کررہے ہوتے ہیں لیکن اس کی فکر نہیں کہ اس سے روزہ ہوگا کہ نہیں۔ قدیم دور مساجد میں جگہ کم ملتی کہ اتنی تعداد ہوتی تھی لیکن جدید دور میں چند صفوں کی بجائے مساجد خالی ملیں گی۔ افسوس صد افسوس جدید دور میں رمضان محض بھوکا رہنا اور افطار پارٹیوں اور راشن دینے کی نمائش تک ہی محدود کردیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

اس لئے حدیث شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے اس کے بھوکے اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں، روزے اور عبادت محض دکھاوے کے لیے رہ گئے ہیں جدید دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے۔ بندہ جب اپنے رب سے تعلق آشنائی محکم و پختہ تر کر لیتا ہے تو اس کی زندگی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے :

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

لیکن دور جدید اس کے برعکس نعوذ باللہ لوگ اب نیک اعمال لوگوں کو دیکھانے کے لیے کرتے ہیں ناکہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے اور ہمارے جدید دور میں جو روزے کا اہتمام کرتے بھی ہیں تو اس کی ہیئت یہ ہوتی ہے کہ صبح سے شام تک صرف کھانا ، پینا اور جمع سے دور رہنا ہے۔ لیکن دوسری لغویات ، جھوٹ اورلڑائی جھگڑے کے اندر شب و شتم تو جیسے ان کیرگ و پے میں رچی بسی ہیں ، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ جو شخص روزے کے اندر فسق و فجور سے بعض نہ رہے اس کے لئے قطعی یہ مناسب نہیں کہ وہ دن بھر بھاکا رہے۔ یعنی ایسے شخص کا روزہ رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ پھر یہ کہ بحالت روزہ فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی ضروری ہے اور اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرکے اپنی مغفرت کرالینا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرلینا ہی اس ماہ مبارک کا مقصد ہے۔

ایک المیہ افطار پارٹیوں کو اپنے گھروں تک محدود نہ کریں کبھی کسی غریب بستی میں افطار کرا کے دیکھیں رب کیسے خوش ہوتا ہے۔ یہ دستر خوان اُن یتیموں کے گھر بچھائیں جن کے سر پر باپ کا سایہ نہیں اور وہ محروم ہیں ان خوشیوں سے۔

تین جوڑے اپنے بچوں کے اگر خریدیں ہیں تو ایک کسی ضرورت مند کو لے کردے دیں۔ رمضان المبارک صرف سحر و افطار کا مہینہ نہیں ہے۔ صرف گناہوں کی بخشش کا مہینہ نہیں ہے صلہ رحمی کا مہینہ ہے رب کو راضی کرنا ہے تو اس کے بندے کو راضی کریں۔

المختصر، رب العزت ہمیں دکھاوے کے بغیر رمضان میں اچھے اعمال کی توفیق دےاوراعمالِ صالح کی دعوت اور فکرِ نافع کی ترسیل کی سعادت دے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔