الباقیات الصالحات

الباقیات الصالحات،،،،،باقی رہ جانے والی نیکیاں ہیں ۔ ہر چیز کو فنا ہے دنیا میں ہم جتنے بھی کا م کرلیں ، کمالیں ، دنیا بنالیں ، لاکھوں کروڑوں میں کھیلیں ، جتنا چاہیں گھومیں پھریں جو مرضی کریں ، ناچیں گائیں ، کھیلیں کودیں ، مرضی کا کھائیں ، صحت بنائیں مگر ساتھ ساتھ اپنی بنیادی عبادات بھی کرتے رہیں ، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج ، عمرہ سب کرچکیں ، مگر پھر بھی دل ہمارے دنیا میں اٹکے رہیں ۔ آخرت کا ہلکا منظر دل میں لانے پر خوف نہ کھائیں ، واپسی کی فکر نہ کریں تو سمجھیں ہم دنیا میں کھو گئے گو یا وہ کشتی جو ہر دم بچتی پچاتی سمندری لہروں سے ٹکراتی اسکا مقابلہ کرتی اور پورے سمندر سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اس کے پانی کو اپنے اندر نہ داخل ہونے دیتی تیرتی رہتی اور یوں ہی اس جہانِ فانی سے گزر جاتی ۔ مگر ہوا کیا؟ ہم نے دنیا کو ہی سب کچھ جان لیا ، اس کی خاطر مرمٹے ، پرتعیش زندگی ، لطف ، عزت ، شہرت کے مقابلے کرتے ہیں سب کو نیچا دکھانے میں لگے رہے پتا ہی نہ چلا ہم کیوں اور کس لئے اس دنیا میں آئے تھے۔

تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے

کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

کبھی کبھی دل چونک جاتا ہے لوگوں کے حادثاتی واقعات دیکھ کر بیماریاں ، لا چاریاں دیکھ کر پھر انکی مدد کرنے والوں کی امداد دیکھ کرکہ جنہوں نے آخرت کو اور آخرت کی زندگی اتنا مقدم جانا کہ اپنی جان و مال کی وقت کی ، دن رات کی پرواہ نہ کی اور لگے رہے مخلوقِ خدا کی خدمت میں کیونکہ انکی نیتیں درست تھیں لہٰذا وہ مطمئن رہے ۔ دنیا میں بھی انہیں اطمینانِ قلب نصیب ہوا اور آخرت کا اجر اللہ پاک کے پاس محفوظ ہے انہیں یقین ہے کہ نیکیاں کبھی ضائع نہیں ہونگی ۔ ـ”مری کا انسانی المیہ” دیکھیں یا” لینڈ زسلائیڈنگ ” کا واقعہ ہر جگہ مصیبت میں مدد کرنے والے یہ بندے اپنی نیتوں پر ہی تو اٹھائے جائیں گے۔ تو ہر وقت ہم کسی بھی نوعیت کا کام کرتے ہوئے اپنی نیتوں کو خالص کرنا ہو گا ۔ جب نیت خالص ہوگی تو یقینا عمل صالح ہوگا اور باقی رہے گا سکون کا باعث را حت کا حامل دنیا کا نتیجہ بھی سبحان اللہ اور اسی نیک عمل پر آخرت کا اجر رب کی ذات سے اور رحمت کے ساتھ تو کتنا پُر امید اور واضح رہے گا ؟ یہ دل سے خود صدا آتی ہے ان شاء اللہ ۔

ایک تحریر میری نظر سے گزری کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے بیت اللہ میں طواف کے دوران دیکھا کہ ایک نوجوان کے پروقار چہرے اور لباس (پھٹے پرانے ) سے مسکین لگ رہا تھا ۔ اسے معلوم ہوا کہ یہ ” سالم” نام کا یہ نوجوان سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا پوتا ہے ۔ خلیفہ عبد الملک افسردہ ہوئے اور نوجوان سے طواف کے بعد مل کر پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا ہی مداح ہوں مگر تمہاری یہ حالت دیکھ کر دکھی ہوں مجھے بڑی ہی خوشی ہوگی کہ میں تمہارے کسی کام آئوں تم اپنی ضرورت بیان کرو میں تمہیں دونگا ۔ تو نوجوان نے کہا کہ اے امیر المومنین! ! میں اس وقت اللہ کے گھر بیت اللہ میں ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں اللہ کے سوا کسی اور سے کچھ مانگوں تو یہ بات میرے لئے قابل شرم ہوگی ۔ خلیفہ عبد الملک کے اس کے پر متانت چہرے کو دیکھا اور بالکل خاموش ہوگئے اور اپنے غلام سے کہا اس نوجوان کو عبادت سے فارغ ہو کر بیت اللہ سے باہر آنے پر مجھ سے ملاقات کروانا لہٰذا غلام نے ایسا ہی کیا ۔ جب سالم بن عبد اللہ خلیفہ کے پاس پہنچے خلیفہ عبد الملک نے کہا اے نوجوان! کیونکہ اب تم بیت اللہ سے باہر ہو اپنی حاجت بیا ن کرسکتے ہو ۔ میری خواہش ہے میں کسی بھی طرح تمہاری مدد کروں ۔

سالم بن عبد اللہ نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین آپ میری کونسی ضرورت پوری کرسکتے ہیں ؟ دنیا وی یا اخروی؟ امیر المومنین نے جواب دیا یہ دنیا وی مال و متاع میں میری دسترس ہے تو سالم بن عبد اللہ نے کہا “امیر المومنین دنیا تو میں نے کبھی اللہ سے بھی نہیں مانگی جو اس دنیا کا مالک ہے مجھے تو صرف آخرت کی پریشانی ہے وہی میری ضرورت ہے لہٰذا میری ضرورت آخرت کے حوالے سے ہی ہے لہٰذا اگر آپ اس سلسلے میں میری مدد کرسکتے ہیں ؟ تو بیان کریں ۔ خلیفہ یہ جواب سن کر حیران رہ گئے کہنے لگے نوجوا ن یہ تم تو نہیں تمہارا خون بول رہا ہے ۔ انہیں حیران اور فکر انگیز چھوڑ کر سالم بن عبد اللہ وہاں سے چلے گئے اور حرم سے متصل گلیوں میں کھو گئے ۔ مطلب کیا ایمان تھا آخرت کا؟ کیا یقین! اور کس قدر اضطراب سبحا ن اللہ ! ایسے واقعات انسان کو اس کے اعمال کو کیسے جھنجوڑتے ہیں۔

آج کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں تو کچھ باتوں میں الجھاتے ہیں مقصد دنیاوی دولت ، شہرت ، عزت ، عہدہ چاہتے ہیں آخرت سے بے خبر ! کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ! چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے بڑے بڑے صلے رب کی ذات ہی دے سکتی ہے ۔ اس نے تو ہمیں مسلم بنا کر اپنا فضل عطا فرمایا ۔ پھر خلیفۃ الارض بنا کر ہمیں آخرت کا عظیم تحفہ دینے کو تیار ۔ قیمت صرف نیک نیتی ، صالح اعمال ، خلقِ خدا کی خدمت ریا اور دکھاوے سے پاک ، صبر و شکر کے ساتھ ۔ کیا خود احتسابی نہیں ہوسکتی ؟ پھردنیا میں سکون کیسے نہیں پا سکتے؟ آج ہم رسوا اور بے چین کیوں، مغلوب کیوں؟ سوچنے کی بات ہے ہماری برائیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں ہمارے کردار مشکوک سے مشکوک تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہم نقالی میں بے حیائی میں کہاں نکلتے جارہے ہیں کیوں نہیں سوچتے ؟ کلامِ الٰہی سے جڑتے اور سمجھتے کہ دنیا تو “متاع غرور”دھوکے کا سرمایہ ہے ۔ جو ہمیں نہیں لینا۔ ہمیں تو دنیا کی امتحان گاہ سے ہر ہر امتحان پاس کرکے آخرت کے نتیجے کیلئے ہر لمحہ متفکر اور فعال رہنا ہوگا ۔ آپ کا کیاخیال ہے ؟ کیا ایسا نہیں؟