لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں بھر کر آنسو 

کچھ ہی دن قبل میرا ایک کالم بعنوان “خدارا نمک پاشی تو نہ کریں” جسارت میں شائع ہوا تھا۔ کاش اس کو سلطنت مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے پڑھا ہوتا تو شاید غریبوں کے زخموں پر نمک پاشیاں کرنے والے کسی حد تک احتیاط سے کام لینے لگتے لیکن لگتا ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کا دل اتنا پھتر ہو چکا ہے کہ انھیں مظلوموں کے بہنے والے آنسو اور درد و کرب میں ڈوبی سسکاریاں بھی گداز نہیں کر سکتیں۔

جب کوئی انسان درندہ بن جاتا ہے تو اس کی تسکین کیلئے ہنستے مسکراتے چہرے نہیں انسانوں کی چیخیں اور کراہیں چاہیے ہوتی ہیں۔ جتنی شدت کے ساتھ آہ و بکا بلند ہوتی ہے، ان کی اذیت پسندی تسکین پاتی چلی جاتی ہے۔ موجودہ حکمران اور ان کے آزو بازو والے بھی اتنے اذیت پسند بن چکے ہیں کہ غریبوں سے دو وقت کی روٹی کا حق چھین لینے کے بعد بھی مسلسل اس تکرار میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک تباہی کی بجائے خوش حالی کی جانب گامزن ہے اور لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سمجھ سے بالا تر جو بات ہے وہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا چار چار گنا زیادہ ہونے، دوا علاج سے ہر قسم کا زر تلافی واپس لینے، ادویات کی قیمتوں کا آسمان تک چڑھ جانے، بے روز گاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو جانے، جمے جمائے کار و باری بازاروں کی توڑ پھوڑ، لوگوں کی رہائش گاہوں کی مسماری اور لوگوں سے نانِ شبینہ تک چھین لینے کے باوجود وزیر اعظم سمیت ان کے تمام کے تمام کڑچھے ایک ہی بات کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک خوش حالی کی اور معیشت کے استحکام کی جانب پچاس قدم بڑھ چکا ہے۔ ان کی اس ادا پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

بجائے یوں کہ لوگوں کی داد رسی کریں، عوام کیلئے آسانیاں پیداں کریں، ان کے آنسوؤں کو خشک کریں اور ان کے لبوں سے چھینی گئی مسکراہٹیں لوٹائیں، ان کا مذاق اڑایا جانے لگے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ فواد چوہدری مری میں دولاکھ سے زائد کاروں کے داخلے پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت سفاکی کے ساتھ یہ فرما رہے تھے کہ ملک میں غربت اور مہنگائی کہاں ہے۔ ملک تو معاشی خوش حالی کی جانب گامزن ہے۔ اگر ملک بد حالی، غربت اور معاشی گراوٹ کا شکار ہوتا تو بھلا دو لاکھ گاڑیاں مری میں کیسے داخل ہو سکتی تھیں۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب کو مری میں داخل ہونے والی دو لاکھ گاڑیاں تو نظر آ گئیں لیکن ان کو مری، اس کے گرد و نواح، اسلام آبادد اور راولپنڈی میں ساٹھ ستر لاکھ ان غریبوں کی بستیاں نظر نہیں آئیں جہاں ہزاروں لاکھوں لوگ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کو تھپک تھپک سلانے کے بعد خود آنسوؤں سے اپنے چہرے دھوکر نہ جانے کس کرب کے عالم سوئے ہونگے۔ ان کو کئی کئی منزلہ عمارتوں اور اونچے درختوں سے چھلانگ لگا کر وہ بچوں والے دکھائی نہ دیئے جو بے روزگاری کی ہاتھوں تنگ آکر اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پاکستان چند ہزار یا چند لاکھ نفوس والا ملک نہیں، 23 کروڑ سے بھی زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس 23 کروڑ والے ملک میں رہنے والے سارے کے سارے لوگ کس طرح اس حد تک مفلسی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں۔ ایسے ممالک جہاں قحط سالی کے ہاتھوں لاکھوں لوگ بھوک سے مر جایا کرتے ہیں وہاں بھی لاکھوں لوگ اعلیٰ ترین گھروں میں رہتے ہیں، لگژری گاڑیوں میں گھومتے ہیں، دنیا کے کونے کونے کی سیاحت کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں نہایت رنگینی اور عیش و آرام سے گزارتے ہیں تو کیا یہ مان لیا جائے کہ قحط سالی محض نظر کا دھوکا یا ان ممالک کی اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہوتا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ فواد چوہدری کو دو لاکھ گاڑیوں والے “عام” لوگ نظر آ رہے ہیں۔ کیا ایسے افراد کو جو اتنی گنجائش رکھتے ہوں کہ لاکھوں روپوں کی گاڑیاں خرید سکیں، تفریح کیلئے پیسے نکال سکیں، مری کے ہوٹلوں میں اپنی راتیں گزار سکیں، لفٹ چیئرز اور کیبل کاروں میں سیر سپاٹے کر سکیں، عام لوگ کہلائے جانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کی نہیں گنجائش والوں کی باتیں ہیں اور بلا شبہ تمام تر مہنگائی کے باوجود بھی لاکھوں پاکستانی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ ایسا کر سکیں۔ کا ش فواد چوہدری کبھی کچی بستیوں کا ہی نہیں، چھوٹے چھوٹے مکانوں اور فلیٹوں میں رہنے والوں کی خبر بھی لیں۔ ہسپتالوں میں تڑپتے ان مریضوں کے لواحقین کی حالت زار کا بھی جائزہ لیں جو اپنے مریضوں کیلئے مہنگی دواؤں کی خریداری کیلئے ہر ایک سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ان قطاروں کو بھی دیکھیں جو سجائے جانے والے دسترخوانوں پر لگی ہوتی ہیں یا وہ افراد جو مزاروں کے لنگرخانوں سے اپنے پیٹ کی دوزخ بھر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی جانب بھی نظر کریں جو کچروں کے ڈھیروں سے اپنی روزی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔

ہم نے فرعونوں کی قصے کہانیاں ہی پڑھیں تھیں لیکن آج اپنی آنکھوں سے سیکڑوں فراعین دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بڑے بڑے ہٹلر، جابر اور بے حس حکران گزرے ہیں لیکن موجودہ حکمرانوں کا درجہ ہی کچھ اور ہے۔ یہ زخم دینے کے بعد زخموں پر نمک مرچ بھی چھڑکتے ہیں۔ غربت کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں اور بار بار انھیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ اب بھی مہنگائی بہت کم ہے۔ پھر جب ان کی آہ و بکا سے آسمان لرزنے لگتا ہے تو وہ ان کی دلجوئی سفاسکانہ انداز میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ

لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں بھر کر آنسو

اس پہ مچلے ہیں کہ ہم زخمِ جگر دیکھیں گے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔