نمک پاشی تو نہ کریں

پورے ملک میں کوئی ایسا فرد نہیں جس کو اس بات کا اعتراف نہ ہو کہ ملک میں مہنگائی نے قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ حد یہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ اس بات سے منکر نہیں کہ ان کی حکومت مہنگائی کے سامنے بند باندھنے میں ناکام رہی ہے۔ تمام وزرا و مشیران، بشمول وزیر اعظم پاکستان، مہنگائی کا اعتراف تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن وہ اس کی توجیہات کے طور پر جو بات کہتے نظر آتے ہیں وہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ان کے نزدیک پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور جب ساری دنیا ہی مہنگائی کا شکار ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں اس طوفان کے ایک دو تھپیڑے نہ پہنچیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پہلے اشیاء کے مہنگا ہونے کا سبب سابقہ حکومتوں کی کار کردگی کو قرار دیا جاتا رہا، پھر مہنگائی کا الزام کوویڈ19 کے سر تھوپا گیا اور اب عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو موردِ الزام ٹہرایا جا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی منڈی میں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی اور چڑھتی قیمتیں ہوں یا عذابِ الٰہی کی صورت میں آنے والی کوویڈ19 کی وبا، دونوں نے پوری دنیا میں مہنگائی کو ہوا دی ہے لیکن نہ تو وہاں کے عوام اس مہنگائی پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں اور نہ ہی پاکستانیوں کی طرح پریشان جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں مہنگائی جتنی بھی بڑھی ہو، افراد کی قوتِ خرید سے کسی طور تجاوز نہیں کر سکی۔ ان ممالک نے نہ صرف کوویڈ اور دیگر بلاؤں میں گرفتار دورانِ وبا، اپنے عوام کا نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ خیال رکھا بلکہ ان کے آمد و خرچ میں توازن بھی بر قرار رکھا جس کی وجہ سے تا دمِ تحریر دنیا کے دیگر ممالک میں کسی بھی قسم کی کوئی بے چینی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی ان ممالک کے سربراہانِ مملکت بار بار مہنگائی کے خلاف “نوٹس” لیتے دکھائی دیئے۔

لطیفہ یہ ہے کہ ایک جانب وزیرِ اعظم بار بار عوام کو یہ اطمینان دلاتے رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی ہے ہی نہیں دوسری جانب مہنگائی کے خلاف ان کے ان گنت نوٹس ہیں اور سیکڑوں مرتبہ پوری کابینہ کی بیٹھکیں ہیں جو مہنگائی کے آگے بند باندھنے کی تجاویز کے طور پر بٹھائی گئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مہنگائی صرف اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے اور اس کا حقیقی وجود ہی نہیں تو پھر سیکڑوں نوٹس اور ہزاروں بیٹھکیں لگانے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی رہی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔۔۔

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

ملک میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی دیکھنے، اس پر نوٹس پر نوٹس لیتے رہنے اور دن رات پوری پوری کابینہ کو بٹھا کر مہنگائی کے خلاف بند باندھنے کی تجاویز طلب کرتے رہنے کے بعد بھی ملک کا وزیر اعظم اپنے عوام کے سامنے یہ کہتا نظر آئے کہ ملک میں مہنگائی ہے ہی نہیں اور یہ سب حکومت مخالفین کا پروپیگنڈا ہے تو عوام کے ساتھ اس سے بھونڈا مذاق اور ظلم کیا ہو سکتا ہے۔

مجھے تو حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں نہایت ذہین، قابل اور صائب الرائے تجزیہ نگار بھی عوام کے رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ٹاک شو میں قابلِ احترام تجزیہ نگار جناب حسن عسکری فرما رہے تھے کہ مہنگائی کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام بھی اپنی طرزِ زندگی بدلیں۔ اگر عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ہر قسم کی عیاشیاں ان کی اپنی خواہشات کے مطابق بھی رہیں اور مہنگائی کا اثر بھی ان پر نہ پڑے تو یہ کبھی ممکن نہیں۔ بات غلط بھی نہیں۔ ہم اپنے شہروں کے سارے گھر اور بازار مسمار کرکے ایس بسٹاس اور ٹین کی شیٹوں والی چھتوں کے مکانات بنالیں، بجلی کی بجائے چراغ بتی والی دنیا آباد کر لیں، فرنیچر کو ایندھن بنا کر چارپائیاں خرید لیں، لٹھے اور پاپلین کے ملبوس پہنا شروع کردیں، سفالی کے پیالے اور تام چینی کی پلیٹیں بطور کراکری استعمال کریں، فرج، ڈیپ فریزر، ٹی وی توڑ پھوڑ کر کباڑیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کے بعد سارا سفر پیدل یا سائیکلوں پر کرنا شروع کردیں تو یقین مانیں جو بھی اور جس کی بھی موجودہ آمدنی ہے اس کے چوتھائی میں ہمارا گزارا بآسانی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے عوام نے پاکستان بنانے کیلئے جان و مال کی جو عظیم قربانیاں دی ہیں وہ دنیا کی کوئی قوم نہیں دے سکتی۔ میں پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ عوام آج بھی اپنے پیٹوں پر پتھر باندھنے کیلئے تیار ہیں۔ ماضی میں دی گئی عظیم قربانیاں انھوں نے اپنے رہنماؤں کی اقتدا میں محض اس لئے دی تھیں کہ وہ بھی اپنا سب کچھ تج کے اپنے اپنے پیٹوں پر دو دو پتھر باندھے نظر آتے تھے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ہوں یا نواب خان لیاقت علی خان، ایک زندہ مثال ہیں۔ آج بھی اگر عوام سے پتھروں کے زمانے میں لوٹ جانے کا کہیں تو اللہ گواہ ہے عوام اپنے ہاتھوں اپنے شہر، گاؤں اور دیہات مسمار کرکے کھلے آسمان تلے اپنی زندگیاں گزانے کیلئے تیار ہو جائیں لیکن اس کیلئے ضروری ہوگا کہ ہمارے سارے رہبران اینٹوں کا تکیہ بنا کر کچی مٹی پر سوتے نظر آئیں۔ قوموں سے وہی رہبران قربانیوں کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہو سکتے ہیں جو اپنے گھرکا سارا سامان دو جہان کے والی کے قدموں میں ڈھیر کردیں۔ یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ تو محلات میں عیش و عشرت کے ساتھ رہیں اور ان کے عوام نانِ شبینہ کو بھی ترستے رہ جائیں۔

خدارا حکمران نمک پاشیاں بند کریں، اپنے محلات کو نیلام کریں، اپنی عیاشیوں پر بند باندھیں، پہلے خود سادگی اختیار کریں پھر قوم سے پتھروں کے زمانے کی جانب لوٹ جانے کا کہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔