ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ پاکستان میں اپنے نام کی تختی لگانے کا ٹرینڈ تو موجود ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے بارے میں ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی نیت بالکل صاف ہو اور وہ واقعی قومی سلامتی پالیسی کے تحت بہتری کی جانب بڑھنے کی کوشش کریں۔ مگر یہ ممکن نہیں اتنے کم عرصے میں وہ ملک کو مکمل طور پر بدل دیں یا کوئی بہت بڑی تبدیلی لے آئیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پالیسی لا کر یہ پیغام دینا چاہ رہے ہوں کہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات بالکل ٹھیک ہیں اور وہ ایک صفحے پر ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ یہ “ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے” اب کیا نئی اور ‘پہلی’ قومی سلامتی پالیسی اس پالیسی سے مختلف ہوگی جو 2014 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے منظور کی تھی؟ یا پھر متوازی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے موجودہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف تو یہی کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کے مابین فرق سمجھ کر اس بات کی آسانی سے تصدیق کر سکتے ہیں کہ پرانی اور نئی و پہلی میں تنگی اور کشادگی کا ہی فرق ہے یعنی پرانی پالیسی داخلی معاملات پر مبنی تھی جبکہ یہ پالیسی داخلی سلامتی، خارجہ امور، انسانی سیکیورٹی اور معاشی سکیورٹی کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ہماری معیشت مضبوط ہو گی تبھی ہمارا شہری محفوظ ہوگا اور دفاعی سلامتی بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔ان کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نئی قومی سلامتی پالیسی کی بنیاد سلامتی سے جڑے داخلی اور خارجی دونوں عوامل ہی بنائے گئے ہیں۔

تاریخ ہمیں بتلاتی ہیں کہ تقریباً فروری 2014 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کی پالیسی کی منظوری دی۔ 94 صفحات پر مشتمل یہ ایک تفصیلی پالیسی تھی جس میں قومی سلامتی کے اہم امور کا جائزہ لیا گیا تھا اور مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل سے متعلق اقدامات واضح کیے گئے تھے۔پالیسی میں یہ بھی کہا گیا تھا مسائل کے حل کے لیے فوجی آپریشنز کی بجائے بات چیت اور مذاکرات کو فوقیت دی جائے گی۔ جبکہ شدت پسند گروہوں سے منسلک وہ شہری جو بھٹک گئے تھے، ان کے لیے اصلاحی مراکز قائم کیے جائیں گے اور انھیں قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے گا۔

2014میں بنی داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں بھی کہا گیا تھا کہ اس پالیسی کا مقصد ‘ایک ایسا محفوظ ماحول قائم کرنا ہے جس میں شہریوں کی جان، مال، سول آزادیاں اور سماجی و معاشی حقوق کا تحفظ ہو اور پاکستان کے شہری آئین کے تحت ہم آہنگی، آزادی، عزت اور وقار کے ساتھ ملک میں زندگی گزار سکیں۔تاہم اس پالیسی میں بنیادی مسئلہ ملک کی سیکورٹی صورتحال پر قابو پانا تھا، تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات اور دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس قومی سلامتی پالیسی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سیکیورٹی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اس پر قابو پا کر ہی معاشی استحکام اور شہریوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

مگر افسوس صد افسوس یہ پالیسی منظور ہونے کے ٹھیک دس ماہ بعد “پشاور میں آرمی پبلک سکول” پر دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد 2015 میں قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور دہشتگرد تنظیموں سے بات چیت ترک کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا فیصلہ ہوا جبکہ فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ قومی ایکشن پلان میں دیگر اقدامات کا فیصلہ بھی ہوا جن میں مدارس سے متعلق اصلاحات، انتہاپسندی کے خاتمے کے اقدامات وغیرہ بھی شامل تھے۔تقریباً 2018 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کا آخری سال تھا، حکومت نے قومی داخلہ سلامتی پالیسی دوم 2023 – 2018 اور قومی ایکشن پلان دوم بھی منظور کیے۔ لیکن عملدرآمد نہیں ہوسکا. افغانستان کی صورتحال اب 2014 کے مقابلے میں مکمل طور پر بدل گئی ہے تو یقیناً یہ پاکستان کی سیکورٹی پالیسی پر اثرانداز ہو گی۔

مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نئی قومی سلامتی پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات شیئر کر رہے تھے تو میرے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اس حکومت نے یہ بہت بڑا قدم اٹھایا ہے لہٰذا اس حکومت کو ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی بھی توفیق عطا فرما؛ کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے جسے بنانے میں سات سال کا عرصہ لگا اور اس پر تمام جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے بھی کا اتفاق کیا ہے۔ اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی مقصد عام شہری کا تحفظ ہے اور اس کا محور معاشی سکیورٹی ہے.اجلاس میں وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ “ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے جبکہ پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی الحمد للہ پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

حصہ