اسلامی قوانین ضروری ہیں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات جیسے ہیں ان سے آج کل بچہ بچہ واقف ہے بلکہ خوفزدہ ہے۔یہ ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا جس کی بنیاد ہی لا الہ الا اللہ ہے آجکل اس میں ہر چیز نظر آتی ہے سوائے اسلامی اصول اور قوانین کے۔

آج کل ملک میں جو انتشار اور قتل و غارت گری پھیلی ہوئی ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے۔بہت سے آزاد خیال لوگوں کو اس بات سے انکار ہو گا۔بہت سوں کو یہ بات قدامت پسندی نظر آئے گی مگر سچ یہی ہے کہ جب تک ہم اسلام اور اس کی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہیں گے معاشرہ گراوٹ کا شکار رہے گا۔

معاشرے کے اندر پھیلا یہ بگاڑ اور بدنظمی کبھی بھی سمیٹی نہیں جا سکتی جب تک اسلامی قوانین کو لاگو نہ کر دیا جائے۔بچے جنہیں اس باغِ جہاں کا پھول کہا جاتا ہے انہیں اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بری طرح روندا اور مسلا جا رہا ہے۔

خواتین اب گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔کہیں شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل ہو رہا ہے،کہیں بیوی کے ہاتھوں شوہر کا،کہیں اولاد ماں باپ کو قتل کر رہی ہے اور  کہیں ماں باپ اولاد کی جان کے دشمن ہوئے کھڑے ہیں۔

یہ اس ملک کے حالات تو نہیں ہونے چاہئیے تھے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کی تعمیر کیلیے کئی خاندانوں نے اپنے خون سے آبیاری کی۔ایسے لگتا ہے جیسے قیامت وقوع پذیر ہونے کو ہے۔ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے ہر انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہے۔

ایسے لگتا ہے جیسے ہر احساس ختم ہو کر رہ گیا ہے۔اب لوگ کسی مظلوم کی داد رسی نہیں کرتے بلکہ اس کی ذات کی کھوج میں لگ جاتے ہیں کہ وہ کیسا انسان ہے اور پھر رائے دی جاتی ہے کہ اگر اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو یہ اسی لائق تھا۔اب کسی کے مدد مانگنے پر اس کی مدد نہیں کی جاتی بلکہ ہاتھ میں نصیحتیں تھما دی جاتی ہیں۔

ایک انسان دوسرے انسان کے اوپر چڑھائی کرنے کو اور اس کا حق مارنے کو ترقی کی ایک کوشش سمجھتا ہے۔یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کو چھوڑ کر مغرب کو اپنا رول ماڈل بنا لیا ہے۔

ہم نے اسلامی تعلیمات اور قوانین کو سخت اور انسان دشمن سمجھ کیا ہے حالانکہ انسانیت کی بقا ان ہی میں ہے۔ہمیں اسلامی قوانین کے لاگو ہونے سے کیوں ڈر لگتا ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح ہمارے دامن بھی سیاہیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اس لیے ہم بھی کہیں ان کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔اس لیے ہر شخص دوسرے پر ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش ہے کیونکہ اپنا دامن تو بچا ہوا ہے۔

اسی لیے تو عمران  اور ظاہر جعفر جیسے ہزاروں درندے کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔اگر کسی ایک کو بھی چوک میں لٹکا دیا جاتا تو حالات شاید کچھ بہتر ہوتے۔زینب کے بعد کوئی ماہم نہ ہوتی۔