کیا میں کسی کا نہیں ؟؟

میرا بچپن نہایت ہی آسودہ گزرا،مجھے زندگی گزارنے کے لیے کوئی بھی سہولت میسر نہ تھی اور سب سے بڑھ کر مذہبی آزادی نہ تھی۔

ایسے میں ایک نجات دہندہ اٹھا اور اس نے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا،اور سارے امیر،غریب،پڑھے لکھے ان پڑھ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے،وہ ہمارے باپ کی طرح تھا،وہ دن رات ہماری آزادی کے لیے کوشاں رہتا آخر کار ان کی ان تھک محنت رنگ لائی اور چودہ اگست انیس سوسینتالیس کو ہم نے ایک آزاد وطن پاکستان بنا لیا ۔قائد نے اپنی جائے پیدائش کراچی کو اس نو مولود ریاست کا دارلخلافہ بنایا۔

کراچی ایک بندرگاہ اور بڑ اترقی یافتہ شہر تھا ۔ٹرام گاڑی اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھی-صبح سڑکیں دھلتی تھی اور رات کو شہر چم چم کرتا،شہر کراچی پڑھے لکھے اور نفیس ترین لوگوں کا مرکز تھا۔

یہاں ملک کے کونےکونے سے لوگ روزگار کے لیے آنے لگے اور اس شہر ناتواں پر اتنا بوجھ بڑھ گیا کہ یہ شہر بے ہنگم ہوگیا، رہی کسر یہاں کے مقامی باشندے جو اپنے آپ کو یہاں کا مالک سمجھتے تھے۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ ملکی حالات خراب ہوتے چلے گئے اور فوج نے اختیار سنبھال لیا-جنرل ایوب خان نے دارلخلافہ کراچی سے تبدیل کرکے اسلام آباد کو بنا دیا اور یہیں سے کراچی کی تنزیلی کا آغاز ہو گیاجو آج تک جاری ہے۔

اگر آج ہم کراچی کی تباہی کو دیکھے تو اس کی ذمہ دار تمام قوتیں ہیں-جب تک کراچی کے پاس اچھے ،دیانتداراور شہر سے محبت کرنے والے لوگ رہے کراچی ترقی کرتا گیا ،کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ھے ۔

خدارا میرے اوپر(کراچی)پر رحم کیجیے

9 تبصرے

Comments are closed.