انسان کی ابتدا ایک مرد اور عورت سے ہوئی ’’یعنی حضرت آدم ؑ اور اماں حوا‘‘ یو ں عورت روز اول سے ہے اور اس کو صنف نازک کا نام ملا۔ صنف نازک ہونے کے باوجود عورت کا ظرف سمندر سے بھی زیادہ ہے۔ عورت بڑ ی سے بڑی مشکل کا سامنا صبرو تحمل سے کرتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھاجاتا تھا۔ عورت کا دائرہ کار صرف گھر تک محدودتھا۔ بیوی کا مقام ایک غلام سے زیادہ نہ تھا ۔ عورت کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ الغرض عورت انسانیت کے درجے سے بھی بہت دور تھی۔ پھر اسی تاریک دور میں اسلام روشنی کی کرن بن کر آیا اور عورت کو معاشرے میں ہر لحاظ سے باعز ت مقام دیا۔سب سے پہلے عورت کو ماں کے روپ میں بلند ترین درجہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی قدر بہت زیادہ دی ہے کیونکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ا س کے بعد بہن اور بیٹی کا مقدس رشتہ بنا کر ایک اعلیٰ مرتبہ دیا۔ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا ۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور لڑکیوں کا گھر میں ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ اسلام میں ایک واقعہ یوں ہے کہ ’’ایک آدمی حضرت محمدؐ کے پاس آیا اور رونے لگا تو رسول اکرمؐ کے پوچھنے پر اس آدمی نے بتایا یا رسولؐ اللہ مجھ سے بہت بڑا گنا ہ ہو گیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا ایسا بھی کیا ہوا؟ تو اس آدمی نے کہا میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جو معافی کے قابل نہیں ۔ پھر بتایا کہ میرے گھرمیں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے اس کو قتل نہیں کیا اور اب وہ پانچ سال کی ہوگئی ۔ ایک دن باہر کھیل رہی تھی تو لوگوں نے مجھ سے کہا توکیسا بے غیر ت ہے کہ بیٹی کو رکھا ہوا ہے۔ جس سے مجھے بہت غصہ آیا اور میں اپنی بیٹی کو لیکر جنگل میں چلا گیا۔ راستے میں ننھی سے بچی نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ جب میں جنگل میں پہنچ گیا تو میں نے ایک گڑھا کھودا۔ جب میں گڑھے سے مٹی نکا ل رہا تھا تو مٹی میرے کپڑوں پر گرگئی تو وہ میرے کپڑے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی اور میرا پسینہ بھی صاف کرتی رہی مگر مجھے اس پر رحم نہیں آیااور میں نے بچی کو گڑھے میں ڈال دیااور مٹی ڈالناشروع کردی۔ بچی چلاتی رہی ،روتی رہی مگر پھر بھی میرے دل میں رحم نہیں آیا۔ یہ سن کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا اے بدنصیب شخص تو یہاں سے چلا جا کیونکہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔اس جدید دور میں بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ لڑکیوں کو باعث شرم سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کا ہونا احساس کمتری اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ ہے ہمارے اسلام کی تعلیم جو ہمیں اور ہماری سوچ کو بھی نہیں بدل سکتی؟ بہت سے لوگ بیٹیوں کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔عورت کی مثال موم بتی کی سی ہے جو خود تو جلتی ہے مگر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ بیوی کے روپ میں چراغ خانہ ہے جو کہ پورے گھر کو روشن رکھتی ہے مگر افسوس آج بھی بیوی کو زمانہ جاہلیت کی طرح غلام ہی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے مرد کا درجہ بلند رکھا ہے وہیں بیوی کے حقوق بھی بنائے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ مر د تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ اس کا ہر حکم مانے اور غلام کی طرح فرمانبردارہو۔ جبکہ وہ عورت جو بیوی کی صورت میں اپنا گھر ، بہن بھائی اور اپنے دوست احباب سب کچھ چھوڑکر صر ف ایک انسان کی خاطر آئے اور شوہر کا ظرف اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے گھر اپنی زندگی میں اسے باعزت مقام دے سکے۔کیا اس لیے ہی اسلام نے عورت کے حقوق متعین کیے تھے ۔ جن کی پاسداری تو بہت دور ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارے ضمیر اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہماری تہذیب میں عورت کو صرف نام کے حقوق دیے جارہے ہیں۔’’ عورت کے حقوق ‘‘ایک عام سے جملہ ہے ۔اگر کسی بھی شخص یا حکمران کو عورت کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے تووہ اسی جملے پر گھنٹوں تقریر کردیتے ہیں مگر عملی طور پر اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آج عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق عورت کے دماغ کا وزن 44اونس ہے جبکہ مرد کا 46اونس ہے۔ جس کی وجہ سے مرد قدرتی طور پر ذہین زیادہ ہیں اس کے باوجود عورت ہرشعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ استاد بن کر قوم کی رہنمائی کرتی ہے اورکبھی سائنسی تجربے میں رہنمائی کرتی ہے ۔ یوں تعلیمی میدان میں بھی آگے ہے مگر اس جدید دور میں بھی کچھ گاؤں اور دیہات کے لوگوں میں عورت کی پڑھائی کو معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے دین میں تعلیم کے بارے میں یہ ہے ’’ علم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر فرض ہے‘‘ جب اسلام نے عورت کو حق تعلیم دیا ہے تو ہمارا معاشرہ کیوں اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔آخرمیں کچھ باتیں ان خواتین کے لیے جو اسلام کی دی ہوئی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔جہاں اسلام نے عورت کا تعلیم کا حق دیا توعورت کو تعلیم ضرور دلوانی چاہیے کیونکہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تووہ اپنے گھر اس دنیا میں جنت بنا دے گی۔ گھر میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے ہوگی۔ مگر عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ جہاں اسلام نے عورت کو اتنے حقوق دیے ہیں وہاں پر عورت کے لیے پردہ بھی لازم قرار دیا ہے ۔ تعلیم کے ساتھ انہیں اپنے پردے کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی بہت پھیل رہی ہے ۔ اس بے حیائی میں جہاں مرد شامل ہیں اس سے زیادہ عورت کا ہاتھ شامل ہے کیونکہ وہ بے پردہ کیوں پھرتی ہے؟تعلیم عورت کو اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ پردے کا بھی حکم دیتی ہے۔اسلام عورت کے بناؤ سنگھار سے منع نہیں فرماتا مگر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے گھر میں رہ کر سنگھار کرو اور کسی نامحر م کے سامنے بغیر پردہ کئے نہ آؤ مگر ہمارے معاشرے میں خواتین جیسے جیسے تعلیم حاصل کررہی ہیں ویسے ویسے پردے سے دور ہوتی جارہی ہیںعورت جدید دورکے نام پر اسلام سے دور نہ ہو۔ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے اپنی بہن بیٹی کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزروانی چاہئیے نہ کہ جدید یا ماڈرن دنیا کے نام پر اسلام کے اصولوں کو بھول کر فحاشی یا بے حیائی کی عام کریں۔اللہ ہم سب دین کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔آمین
43 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
ڈے کئیر سنٹرز ! ممتا کا متبادل ؟
ڈے کئیر سنٹرز میں بچوں کو رکھنے کا تصور نیا اس لئے نہیں کہ جب ہمارے ہاں ملازمت پیشہ یا مصروف کاروباری خواتین کے پاس بچوں کی دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا تو گھر میں ساس ( بچوں کی دادی ) یا پھوپھو ایک طرح سے بچوں کی پورا دن دیکھ بھال کرتی ہیں اور وہ بھی بلا معاوضہ ۔
میری ایک کزن اپنی بچیوں کو اپنی والدہ کے پاس پورا دن کے لئے چھوڑ کر آتی تھیں اور اس دوران وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر ہوجاتی تھیں ۔ بچوں کو کوئی ٹھوس غذا دینی ہو یا وہ رو رہا ہو یہ سب کام نانیاں اور دادیاں بخوشی کر لیا کرتی تھیں لیکن اب حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈے کئیر سینٹرز بن رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ایسے مراکز قائم ہیں کیونکہ یہاں کی خواتین ہی زیادہ تر نوکری کرتی ہیں ۔
ہمارے ملک کے اداروں کے قانون کے مطابق جن اداروں میں پچاس یا اس سے زیادہ خواتین ملازمت پیشہ ہوں وہاں ایسے دفاتر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈے کئیر کی سہولت فراہم کریں ۔ سن دو ہزار سات میں جرمنی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ڈے کئیر سینٹرز سے متعلق اہم فیصلے کرنا تھے لیکن اس کا اطلاق بہت دیر سے یکم اگست دو ہزار تیرہ میں ہوا ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ کتنی عمر کے بچے یہاں ڈے کئیر سنٹرز میں ہوں ۔ عموما یہاں بچوں کو دو طرح کے گروپس میں بانٹا جاتا ہے جن میں ایک بہت ہی چھوٹے یعنی نوزائیدہ ہوتے ہیں جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی میں تین سے سات ماہ کی عمر کے بچے رکھے جاتے ہیں۔ کیوبا میں تین ماہ سے کم عمر بچے کو ڈے کئیر سنٹرز میں نہیں لیتے ۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو خود بھی ڈے کئیر سنٹرز کی سہولت فراہم کرتے ہیں جیسے کئی بڑی کمپنیاں اور تعلیمی ادارے جہاں ان بچوں کی مائیں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔ عمر کا فرق ہر جگہ پر مختلف ہے ۔
فیس کے معاملے پر آئیں تو پہلے رجسٹریشن فیس ہی اڑھائی ہزار روپے سے شروع ہو رہی ہے اور ماہانہ فیس تین سے پانچ ہزار تک یہ بھی صرف ایک اندازہ ہی ہے کیونکہ آج کل کی مہنگائی کے مطابق فیس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ جاپان میں بیس لاکھ سے زاید بچے ڈے کئیر سینٹرز میں رہتے ہیں ۔ ڈے کئیر سینٹرز کے اگر فوائد ہیں تو وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن ان کے نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے ۔
بلاشبہ ڈے کئیر سنٹرز ایسے ہیں جہاں خواتین جو ملازمت پیشہ ہوں انہیں آسانی ملتی ہے کہ وہ وہ تمام تر تفکرات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی ہیں لیکن کیا وہاں موجود آیا اور دیگر خدمت گار خواتین ممتا کا نعم البدل ہیں ؟ یقیئنا نہیں ۔ بچہ بیمار ہو یا کسی بھی الجھن کا شکار ہو ماں کے ایک ہلکے سے لمس سے ہی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔
میں نے...
غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا
اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جبکہ ذی الحجہ آخری مہینہ ہے۔ پہلے اور آخری دونوں مہینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے" قربانی "۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ،ابتدا ہے اسماعیل
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اولاد آدم کو سب سے زیادہ عزیز اس کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔ ذی الحجہ کے مہینے میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے لٹانا ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم بھی رب العالمین کے سامنے اپنی جان و مال اور نفس کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ جب بھی حکم ربی ہو ہم اسے ادا کرنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہ کریں۔
دوسری قربانی محرم الحرام کے مہینے میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا کے میدان میں دی گئی۔ یہ قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے بلکہ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا ہے ۔جب معرکہ حق و باطل ہو تو حق کی خاطر ڈٹ جانا ہے خواہ اس راہ میں اپنی جان و مال، آل و اولاد سب کچھ قربان کر دینا پڑے ہمیں ہر وقت اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہے
آج غ ز ہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اہل غ ذ ہ اسوہء ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنی عزیز ازجان ،اپنی متاعِ حیات یعنی اپنی اولاد کو قربان کر رہے ہیں کیوں۔۔۔۔؟ صرف اور صرف رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ۔۔۔ وہ دنیاوی لذتوں کے حصول کے بجائے جنت کے خریدار بن رہے ہیں ۔
غ زہ کا میدان آج کربلا کے میدان کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں معصوم بچوں پر پانی بند ہے، کھانا میسر نہیں، بموں کی بارش ہے جس میں ننھے بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔
آفرین ہے ان معصوم زخمیوں پر کہ جب ڈاکٹر بیہوشی کی دوا نہ ملنے پر ان کا آپریشن ہوش میں ہی کرتے ہیں تو وہ چیخیں نہیں مارتے بلکہ ان کے لبوں پر قرآن مجید کی تلاوت جاری رہتی ہے۔
الغرض کے دونوں قربانیوں کے پیغام کو اہل غ ز ہ نے نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر اپنا شمار سابقون والاولون میں کروا رہے ہیں ۔
غ زہ کے میدان میں ماؤں کی گود میں ہمکتے ہوئے پیاسے بچے معصوم علی اصغر کی یاد دلا رہے ہیں۔ کہیں مثل "جگر گوشہء حسین" سکینہ جیسی بچیاں بھوک سے بلکتی نظر آ رہی ہیں۔ کہیں خوبصورت، صحت مند اور کڑیل نوجوانوں کی کٹی پھٹی لاشیں علی اصغر اور علی اکبر شہید کی یاد دلارہی ہیں۔ اس میدان کرب و بلا میں حضرت...
امریکی کانگرس کے بعد اقوام متحدہ!۔
امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری حراست ، انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قید کیا گیا مناسب یہ ہو گا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں معاوضے کا حق دیا جائے۔
ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں سائفر اور پہلے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو بنا کسی قانونی جواز کے گرفتار اور نظر بند کیا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے تاکہ سابق وزیرِاعظم اور ان کی جماعت کو انتخابات کی دور سے باہر رکھا جا سکے۔ سائفر کیس میں عمران خان کو ہونے والی سزا کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔’بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ ان (عمران خان) کے اقدامات سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی۔‘
ورکنگ گروپ کا مزید کہنا ہے کہ پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد انہوں نے حکومتِ پاکستان سے ان الزامات کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی تاہم پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی تردید کی غیر موجودگی میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کا تعلق ان کی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے ہے اور ان مقدمات کا مقصد سابق وزیرِ اعظم اور ان کے حامیوں کو خاموش کروانا اور انھیں سیاست سے دور رکھنا ہے۔‘
امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ بانی تحریکِ انصاف عمران خان کے خلاف اقدامات اور مقدمات سے متعلق سب کچھ بخوبی جانتے ہیں ، اس لئے کہ جو کچھ عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ہوا ، ایبسلوٹلی ناٹ، کے بعد ان کی خواہشات کے مطابق ہوا اور ہو رہا ہے ، امریکہ اور اس کے درباری نہیں جانتے تھے کہ عمران خان ایک عوامی قوت ہیں ، وہ پاکستانیوں کے دل پر راج کرنے والے پاکستان سے مخلص قائد عوام ہیں ۔ لیکن آج امریکہ اور اس کے درباری جان گئے ہیں کہ ہم نے جو کیا غلط کیا ، دنیا کی نظروں میں وہ اپنے منافقانہ کردار میں ننگے ہو گئے ہیں۔ اگر آج امریکہ اور اس کے حواری عمران خان کے حق میں بول رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عمران خان یا پاکستان کی عوام سے مخلص ہیں، دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنے کردار میں ہاتھی کی مثال ہے ، اس کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور ہیں ، ، اس لئے پاکستان کی محب وطن عوام کو ایسی کوئی غلط فہمی نہیں کہ امریکی کانگرس اور اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ عمران خان او ر تحریک انصاف کے زخموں پر مرحم رکھے گا ۔
امریکہ اور اقوام متحدہ نے وقت کے شیطان اسرائیلی حکمران...
عُمَرؓ بن خطاب
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اسلام سے پہلے غلافِ کعبہ سے لپٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت چھپ کر سن رہے تھے تودل میں سوچنے لگے یہ شاعر ہیں ۔ نبی کریم ﷺسُورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہ کسی شاعر کا قول نہیں۔ عمر نے پھر سوچا یہ ضرور کاہن ہیں۔ نبی کریم نے پھر تلاوت کی اور نہ کسی کاہن کا قول ھے۔ قرآن کی حقانیت اسی وقت دل میں گھر کر گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا کی اے اللّٰہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل ) میں سے کسی ایک کو میرا مدد گار بنا دے۔ ہدایت ملنے نہ ملنے کا سارا فلسفہ اسی دعا سے ملتا ھے۔
دونوں کرداروں کا جائزہ صرف ہجرت حبشہ سے لیں تو عمر بن خطاب خالہ زاد بہن کے جانے پر ان کے گھر گئے تو اتنی قدآور شخصیت اپنے آنسو نہ چھپا سکی۔ دوسری طرف عمر بن ہشام ہجرت کر نے والوں کو مار نے کے درپے تھا، ان کی زمینوں پر قبضے کر رھا تھا۔
حضرت عمر ایمان لائے تو پہلی بار علی الاعلان نماز پڑھی گئی۔
حضرت عمر کی حکومت کے چند واقعات کا موجودہ جمہوری حکومت سے موازنہ کریں تو اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کے نظام کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ھوتا ھے۔
جب کسرٰی کاتاج حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو فرمایا کیسے ایمان دار لوگ ھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا قوم نے آپ کو پاکیزہ پایا تو پاکیزہ ہو گئی۔ آج حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی کرپٹ ۔
ایک مرتبہ گورنر مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا قصور کوڑے مارے تو گورنر مصر کوان کے بیٹے سمیت واپس بلوالیا اور قبطی سے اتنے ہی کوڑے بیٹے کو اور دو کوڑے عمرو بن العاص کو مارنے کا حکم دیا اور فرمایا اے عمرو ! ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنا لیا۔ آج ایک کرنل کی بیوی ناحق سرکاری اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دیتی ھے کہ اس کی گاڑی کو کیوں روکا گیا۔
ایک گورنر سے جب بیت المال کا حساب مانگا تو اس نے کہا یہ بیت المال کا اور یہ میرے تحائف ہیں تو گورنری سے معزول کر کے بکریاں چَرانے پر لگا دیا۔ ایک دن بکریاں چرا رھے تھے حضرت عُمَرؓ پاس سے گزرے تو پوچھا کوئی تحفے آئے وہ شرمندہ ہو گئے تو فرمایا تحفے تمہاری ذات کو نہیں سرکار کو ملے اور سرکاری خزانے میں جمع کرنے ہوتے ہیں، آج کروڑوں کے سرکاری تحائف بیچ کر کھانے والے بھی خود کوصادق اور امین سمجھتے ہیں۔
ایک خاتون نےپانی ابلنے کو رکھا کہ بچے کھانا سمجھ کر بہل جائیں اور سو جا ئیں۔ ایسے میں حضرت عمر رات کو گشت پر تھے یہ صورتحال دیکھی تو بیت المال سے کھانے کا سارا سامان لا کر دیا خاتون کہنے لگی اس عمر کو تو میں قیامت میں پوچھوں گی حکمرانی کے لائق تو تم ہو حضرت عمر...
بچوں کی شادی کے فیصلے
اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے ۔جس میں یہ مقدس ہستیاں اپنی تمام effort serve كرتی ہیں ۔جیسے جیسے اولاد جوان ہورہی ہوتی ہے اب والدین کو ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ فقط شادی کروادینا ہی کمال ہے یا شادی کروانے سے پہلے اہم اور ضروری باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ شادی جیسا بڑاایونٹ تو سجا لیا سرمائیہ بھی صرف ہوا۔لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ کسی طور پر بھی معقول نہیں تھا ۔
قارئین:بعد کے رونے سے پہلے والدین کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ۔یہاں ہم کچھ باتیں آپ سے shareكرنے جارہے ہیں جو بچوں کے رشتے اور شادی کے حوالے سے والدین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوں گیں ۔آئیے جانتے ہیں ۔
کھلی بات چیت:Open Communication:ْ
ایک ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں والدین اور ان کے بچے کے درمیان کھلی بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔منگنی ،شادی وغیرہ کے معاملے میں بچوں کے خیالات، خواہشات اور خدشات کو سنیں۔ باخبر فیصلہ کرنے میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
انفرادی انتخاب کا احترام کریں:Respect Individual Choices:
اپنے بچوں کو اقرار و انکار اور انتخاب کا حق دیں ۔تاکہ وہ آپ کے سامنے اپنی ترجیحات، اقدار اور خواہشات کا اظہارکرسکیں ۔ ان کی خودمختاری کا احترام کریں اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ فیصلہ ان کی خوشی اور بھلائی کے مطابق ہے۔نیز پھر آئندہ یہ اپنی ذمہ لیتے ہوئے اس رشتے کو بھرپورانداز میں نبھانے کی کوشش بھی کریں گے ۔
مطابقت پر غور کریں: Consider Compatibility:
اپنے بیٹے و بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے اس بات کا ضرور اندازہ کرلیجئے کہ آپکے بیٹے یا بیٹی اور سامنے والے بچے بچی میں کس حد تک خیالات و طبیعت میں کس حد تک مطابقت ہے ۔یہ مطابقت شادی کی کامیابی اور خوشی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
خاندانی پس منظر کا اندازہ کریں:Evaluate Family Dynamics:
آپ والدین ہیں آپکی ذمہ داری بھی اہم ہے ۔چنانچہ اپنے بچوں کے ہمسفر کا انتخاب کرنے چلے ہیں تو ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ اس خاندان کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کریں تاکہ آپ کو ان کی طبیعت ،مزاج ،ترجیحات کا اندازہ ہوسکے ۔یہ معلومات آپ کو رشتوں کو سمجھنے اور بچوں کی ازدواجی زندگی بحال رکھنے میں بہترین مددگار ثابت ہوگی ۔
مشورہ طلب کریں: Seek Advice:
ہم اس دنیا میں تنہا نہیں جی سکتے چنانچہ کہیں ہمارے خونی رشتے ہوتے ہیں اور کہیں ہمارے سماجی رشتے ہوتے ہیں چنانچہ آپ بچوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے چلے ہیں تو لازمی لازمی خاندان کے بھروسہ مند افراد، دوستوں، یا بزرگوں سے مشورہ لیں جنہیں اسی طرح کے فیصلے کرنے کا تجربہ ہے۔ان کی بصیرت اور نقطہ نظر ممکنہ شادی کے ساتھی کی مناسبت کا اندازہ لگانے میں قابل قدر رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ان کا تجربہ ،ہمدری اور دعائیں آپ کے اہم اور ذمہ داری...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
Do you have a spam problem on this blog; I also am a blogger, and I was wanting to know your situation; many of us have developed
some nice procedures and we are looking to swap strategies
with other folks, why not shoot me an email if interested.
Good day! This is kind of off topic but I need some help from an established
blog. Is it very hard to set up your own blog? I’m not very techincal but I
can figure things out pretty quick. I’m thinking about creating my
own but I’m not sure where to begin. Do you have any
points or suggestions? With thanks
I do not know if it’s just me or if everybody else encountering problems with your blog.
It appears as if some of the written text within your posts are running off the screen. Can someone else please comment
and let me know if this is happening to them as well?
This may be a issue with my browser because I’ve had this happen previously.
Many thanks
Thanks for sharing your thoughts. I really appreciate your efforts and I will be waiting for
your further write ups thanks once again.
I’ve been browsing on-line more than three hours as of late, yet I never found any interesting article like yours.
It is pretty worth enough for me. In my opinion, if all webmasters
and bloggers made excellent content material
as you did, the net might be much more helpful than ever before.
What’s up friends, its fantastic article concerning educationand entirely explained, keep it up all the time.
Hello! I’ve been reading your web site for a while now and finally got the courage
to go ahead and give you a shout out from Lubbock Texas!
Just wanted to tell you keep up the excellent job!
What’s up to all, for the reason that I am really
keen of reading this website’s post to be updated daily.
It includes good material.
I like it when people get together and share ideas. Great website,
continue the good work!
Greetings! Very helpful advice in this particular article!
It’s the little changes that make the biggest changes.
Thanks a lot for sharing!
I am now not sure where you’re getting your info,
but good topic. I must spend a while studying more or working out
more. Thank you for excellent info I was
in search of this info for my mission.
I’m gone to inform my little brother, that he should also go to see this blog on regular basis to obtain updated from most up-to-date news.
My brother recommended I might like this website.
He was entirely right. This post truly made my day.
You cann’t imagine just how much time I had spent for this
information! Thanks!
Aw, this was a very nice post. Finding the time and actual effort to produce a top notch
article… but what can I say… I procrastinate a lot
and don’t manage to get nearly anything done.
Great post. I used to be checking continuously this weblog and I’m inspired!
Extremely helpful info specially the remaining phase 🙂 I maintain such information much.
I was looking for this certain information for a very long time.
Thanks and good luck.
Hello to all, how is the whole thing, I think every one is getting more from
this website, and your views are nice for new viewers.
Hi there to all, how is everything, I think every one is getting more from this web site, and your views are
pleasant in favor of new people.
My brother suggested I might like this website. He was totally right.
This post truly made my day. You cann’t imagine
just how much time I had spent for this information! Thanks!
Thanks to my father who stated to me on the topic of this webpage, this blog is truly amazing.
I pay a quick visit daily a few web sites and sites to read posts, however this blog
offers feature based posts.
Hello, this weekend is good designed for me, because this moment i
am reading this fantastic educational article here at my home.
This is very interesting, You’re a very skilled blogger.
I’ve joined your rss feed and look forward to seeking more
of your fantastic post. Also, I have shared your website
in my social networks!
Just desire to say your article is as astonishing. The clarity in your post is simply cool
and i could assume you are an expert on this subject. Well with your permission allow me to grab your
RSS feed to keep up to date with forthcoming post.
Thanks a million and please continue the gratifying work.
Nice post. I was checking constantly this blog and
I’m impressed! Very helpful info specifically the last part 🙂 I care
for such information a lot. I was looking for this certain information for
a very long time. Thank you and good luck.
Pretty! This was an incredibly wonderful article. Thanks for supplying this information.
I do not even know how I ended up here, but I thought this post was great.
I do not know who you are but definitely you’re going to a famous blogger
if you are not already 😉 Cheers!
Excellent goods from you, man. I have take note
your stuff previous to and you are just too great.
I really like what you’ve obtained right here, certainly like what you are saying
and the way through which you are saying it. You make
it entertaining and you continue to take care of to stay
it sensible. I can not wait to read much more from you. That is actually a wonderful site.
Normally I do not learn article on blogs, but I would
like to say that this write-up very pressured me to take
a look at and do so! Your writing style has been amazed
me. Thank you, very great article.
Hi there would you mind letting me know which hosting company you’re using?
I’ve loaded your blog in 3 completely different web browsers and I must say this blog loads a lot
faster then most. Can you recommend a good internet hosting provider
at a honest price? Thanks, I appreciate it!
Thanks for finally talking about > حیا عورت کا زیور | Jasarat Blog < Liked it!
I got this site from my pal who shared with me regarding this web
page and now this time I am visiting this site and reading
very informative articles at this time.
I loved as much as you will receive carried out right here.
The sketch is tasteful, your authored subject matter stylish.
nonetheless, you command get bought an nervousness over that you wish
be delivering the following. unwell unquestionably come
more formerly again as exactly the same nearly very
often inside case you shield this hike.
I’m gone to inform my little brother, that he should also visit this website on regular basis
to obtain updated from most up-to-date gossip.
Great blog right here! Also your site rather a lot up fast!
What web host are you using? Can I am getting your associate hyperlink
for your host? I want my web site loaded up as quickly as
yours lol
Excellent blog you have here.. It’s difficult to find good quality writing like yours these days.
I truly appreciate people like you! Take care!!
Its like you read my mind! You appear to know so much about this, like you
wrote the book in it or something. I think that you can do with
a few pics to drive the message home a little bit, but instead of that, this is
great blog. A fantastic read. I’ll certainly be
back.
Howdy, i read your blog from time to time and i own a similar one and i was just wondering if
you get a lot of spam remarks? If so how do
you prevent it, any plugin or anything you can advise?
I get so much lately it’s driving me insane so any assistance is very
much appreciated.
Cool blog! Is your theme custom made or did you download it from somewhere?
A theme like yours with a few simple tweeks would really make
my blog jump out. Please let me know where you got your theme.
Thanks a lot
Good article! We will be linking to this particularly great
post on our site. Keep up the great writing.
Excellent post. I used to be checking constantly this weblog and I’m inspired!
Very useful information specially the last phase 🙂 I handle such information a lot.
I was seeking this certain info for a very lengthy time. Thank you and good luck.
Hello friends, fastidious piece of writing and good urging commented here, I am genuinely enjoying by
these.
It’s appropriate time to make some plans for the future and it’s time to be happy.
I have read this post and if I could I wish to suggest you some
interesting things or tips. Perhaps you can write next articles referring to this article.
I desire to read more things about it!
Hello! Do you use Twitter? I’d like to follow you if that would be ok.
I’m undoubtedly enjoying your blog and look forward to new posts.