علامہ ظفر احمد عثمانیؒ 5 اکتوبر 1892 کو دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم دیوبند سے حاصل کی اور پھر تھانہ بھون ،کانپور اور سہارنپور میں مختلف علما ومشائخ سے فیض یاب ہوئے۔ 1954 میں قیام پاکستان کے بعدمولانا ظفر احمد عثمانیؒ ٹنڈو الہ یار چلے آئے، جہاں انہوں نے ایک مدرسۃ العلوم قائم کیا اور آخری وقت تک اسی مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
تصانیف پرایک نظر:
آپؒ کی تصانیف میں تحذیر المسلمین عنن الموالات المشرکین، فتاویٰ امداد الاحکام، اعلاء السنن اور انوار النظر فی آثار الظفر سرفہرست ہیں۔ذیل میں ان کی دواہم تصنیفات کاتعارف درج کیاجارہاہے:
(۱)اعلاء السنن:
یہ وہ کتاب ہے جب غیر مقلدیت کا فتنہ ہندوستان کے علاقے میں پنپ رہا تھا۔ تو مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی نوراللہ مرقدہ کھڑے ہوئے اور 22 جلدوں پر مشتمل فقہ حنفی کے ماخذ احادیث پر ایسی مفصل کتاب لکھ دی کہ اس کے بعدجو بھی کتاب اس موضوع پر لکھی جائے گی، وہ اسی کتاب سے ماخوذ ہی کہلائے گی۔معروف حنفی عالم علامہ زاہد کوثری مصری ؒسے اعلا السنن کاتعارف سنیے،وہ اپنے مضمون : احادیث الاحکام میں فرماتے ہیں:
’’اسی ڈھب کے کام کی طرف یکتائے زمانہ علامہ اور اپنی نظیر آپ، صاحبِ علم و فضل، ہندوستان کے شیخ المشائخ، محدث کبیر اور ماہر نقاد، مولانا حکیم الامت محمد اشرف علی تھانوی ؒنے بھی توجہ فرمائی، آپ کثیر التالیف شخصیت تھے، چھوٹی بڑی تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ کتب تالیف کیں۔آپ نے اس موضوع پر احیاء السنن اور جامع الآثار تالیف فرمائی ہیں، ان دونوں کتابوں کے عظیم مولف کے نام کے بعد ان کتابوں کی مزید توصیف وتعریف کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔اس جلیل القدر عالم نے علوم حدیث کی تحصیل کرنے والے اپنے شاگرد اور بھانجے محدث نقاد اور فقیہ مولانا ظفر احمد تھانوی ، اللہ ان کے کارناموں کو اور زیادہ کرنےکا حکم دیا کہ وہ فقہی ابواب کی ترتیب پر فقہی مسائل کے دلائل سے متعلق احادیث ِاحکام ان مآخذ سے اچھی طرح جمع کریں جن مآخذ تک عموماً رسائی مشکل ہوتی ہے۔
ساتھ ہی ہر حدیث پر صفحے کے حواشی میں صناعت حدیث (یعنی احادیث کی تقویت وتضعیف) فقہا کے اختلاف کی روشنی میں احادیث کا قبول و ردکے تقاضوں کے موافق کلام کریں، چناں چہ اس غیور عالم نے اس اہم اور مشکل کام کو انجام دینے کا بیڑا اٹھالیا، بیس برس تک مسلسل اس خدمت میں پوری تن دہی سے مشغول رہے،یہاں تک کہ نہایت ہی عمدگی سے اس کام کو عمدہ انداز کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے یہ علمی کام ’’آثار السنن ‘‘کی تقطیع کے مطابق بیس جلدوں میں مکمل ہوا، اس کتاب کا نام انہوں نے’’ اعلاء السنن ‘‘رکھا اور ایک جلد میں صرف اصول ِحدیث کے موضوع سے متعلق مسائل کو اعلا ء السنن کے ایک بہترین مقدمے کی صورت میں مرتب کیا، یہ مقدمہ اپنے موضوع پرانتہائی مفید ہے۔۔۔۔جس انداز سے اس کتاب میں احادیث کو اچھی طرح جمع کیا گیاہے اور پھر ہر حدیث پر صناعتِ حدیث کے مطابق سند اورمتن کے حوالے سے خوب تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور اس گفتگو میں کسی قسم کے تکلف وتصنع کے اثرات بھی ظاہر نہیں ہیں، بلکہ ہر موقع پر مصنف نے انصاف کو اپنا راہ نما بنا رکھا ہے، اس اسلوب سے مجھے بے حد خوشی اور خوب رشک ہوا۔رجالِ کار کی ہمت وعزیمت اورمردانِ میدان کا صبر واستقلال ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘(ترجمہ:محمدبلال بربری،بحوالہ
:http://www.farooqia.com/ur/lib/1438/05/p48.php)
ّ(۲)امدادالاحکام:
یہ ان فتاویٰ کانادر روزگارمجموعہ ہے جوحکیم الامت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کی خصوصی رہنمائی میںان کے جلیل القدر بھانجے اور شاگرد رشید حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے تحریر فرمائی۔یہ مجموعہ تقریبا انیس سال کے فتاویٰ پرمشتمل ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے فتاویٰ پرحضرت حکیم الامت کے تصدیقی دستخط ہیں اور جن پر تصدیقی دستخط نہیں، وہ بھی اکثر آپ کے زبانی مشورے سے لکھے گئے ہیں اور جن فتاویٰ میں مشورے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ان کی صحت پربھی آپ کو تقریبا ًایسا ہی اعتماد تھا، جیسے اپنے لکھے ہوئے فتاویٰ پر، یہ سب تفصیل حکیم الامت حضرت تھانویؒ ہی نے امدادالاحکام کی تمہید میں بیان فرمائی ہے۔
قیام پاکستان میں قائدانہ کردار:
قیام پاکستان کے سلسلے میں ان کاکردارمحتاج بیان نہیں۔علامہ زاہدالراشدی صاحب لکھتے ہیں: تحریکِ پاکستان کو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی اور دیگر سربرآوردہ علما کرام کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ حکیم الامت تھانوی کی حمایت اور سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کی خدمات کا اعتراف خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وقت کے قومی پریس میں واضح طور پر کیا۔ اور ان کی خدمات کے عملی اعتراف کے طور پر پاکستان کا جھنڈا کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒکے ہاتھوں سب سے پہلے لہرایا گیا۔
(بحوالہ:http://zahidrashdi.org/1890)
محمد یوسف شیخوپوری لکھتے ہیں: لیگی رہنماؤں نے علما کو ساتھ ملایا، بالآخر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے متوسلین نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تو اب تحریک آزادی و تقسیم ہند کو عروج ملا۔ جمعیت علما اسلام کے نام پر ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تحریک کو مزید تیز کیا۔ جناب محمد علی جناح جو سیاست کو مذہب سے الگ رکھنے پر مصر تھے، حضرت تھانوی اور ان کے وفد مثلا مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا شبیر علی تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد شفیع ؒنے ملاقاتیں کیں اور ان سے منوایا کہ سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔
ان علما نے ملک بھر میں طوفانی دورے کیے، جن کی وجہ سے مسلم لیگ کو ایک نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا۔ انہی علمائے حق کی انتھک محنتوں اور قربانیوں سے پاکستان کا خواب شرمند تعبیر ہوا۔ ۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد مبارکباددینے کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا شبیر علی تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد شفیع ؒ وغیرہ کی قیادت میں ایک وفد بانی پاکستان جناب محمد علی جناح کے پاس پہنچا تو انھوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور کہاکہ حضرات مبارکباد کے مستحق حقیقت میں آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی کاوشیں اور محنتیں نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان وجود میں نہ آتا۔۔۔۔بانی پاکستان محمد علی جناح کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ بھی علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ (تعبیر پاکستان و علما ربانی )
مفتی رفیق احمد بالاکوٹی لکھتے ہیں کہ حضرت قائداعظم سے سوال کیا گیا کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی صحت وسندکے لیے کون سے علمائے مذہب آپ کے ساتھ ہیں؟ تو قائد کا جواب تھا: مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم(حضرت تھانوی)ہے، جس کا علم و تقدس و تقوی سب سے بھاری ہے، اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی، جو چھوٹے سے قصبے (تھانہ بھون)میں رہتے ہیں، مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے۔ ۔۔۔ ان ہی بزرگوں کی کاوشوں سے قراردادِ مقاصد تیار و منظور ہوئی۔
(بحوالہ:https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail)
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کا انتقال 8 دسمبر 1974 کو ہوا۔ وہ ٹنڈوالہ یار میں اپنے قائم کردہ مدرسے میں آسودہ خاک ہوئے۔مقام افسوس ہے کہ قیام پاکستان میں اس قدر کلیدی کرداراداکرنے والی اس عبقری شخصیت کا یوم وفات ہر سال دبے پاؤں آتا اور چلاجاتاہے،حکومت کی طرف سے کسی تقریب کا انعقادہوتاہےاور نہ ہی کسی اور ادارے کی طرف سے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان جیسی شخصیات کے وفات کے دن پر تقاریب کا انعقاد کرکے نئی نسل کو ان کے کارناموں سے متعارف کرایاجائے۔