ریاست مدینہ براہیمؑ سا ایمان چاہتی ہے

علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

11 ستمبر 2000 (11/9) کا واقعہ کیا ظہور پذیر ہوا کہ دنیائے اسلام پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی اور پورا عالم اسلام اس واقعے کے بعد اس بری طرح لپیٹ میں آیا کہ تا حال لاکھ کوشش کے باوجود بحران سے باہر نکل نہیں پا رہا۔

امریکہ ہو، دنیا کی اور بڑی طاقتیں ہوں یا خود ہمارے ملک کے مقتدر حلقے شاید ان سب کی سوچ کا محور ایک جیسا ہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی مقتدر حلقے یہی کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں کہ تمام جرائم کا ملبہ ایسے “بد” پر گرادیتے ہیں جو معاشرے میں اچھی طرح بد نام ہو چکا ہوتا ہے اور اس طرح سارا کا سارا کیس دب کر رہ جاتا ہے یا دبا دیا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ملک میں ایک تنظیم بنی جس کا نام “الذوالفقار” تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ تنظیم ایک سیاسی پارٹی کو ہر جانب سے گھیرنے کی کوشش میں وجود میں آئی تھی۔ اس تنظیم کی تخریب کاری میں سب سے سنگین واقعہ یہ ہوا تھا کہ پی آئی اے کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا گیا تھا اور پھر یرغمالیوں اور طیارے کو بچانے کیلئے اس وقت کی حکومت کو ان کے مطالبات ماننے پڑے تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں جہاں بھی کوئی بڑا جرم یا تخریب کاری کا واقعہ ہوتا اور مجرموں کا سراغ لگانا ناممکن ہوجاتا تو اس واقعہ کی تما تر ذمہ داری الذوالفقار پر ڈال کر کیس کو داخل دفتر کر دیا جاتا۔ اس کے بعد موساد اور خاد کے نام چلے، پھر “را” نے سب ناموں کو پس دیوار ڈال دیا، ان ناموں کے بعد کراچی کی ایک سیاسی جماعت کا نام کراچی کی ہر بڑی تخریب کاری اور کسی بھی سنگین واردات میں آتا رہا اور اس طرح ہر کیس کو داخل دفتر کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد القائدہ کے کھاتے کھولے گئے، طالبان کا نام استعمال کیا گیا اور ساری تخریب کاریاں انھیں کے سر لپیٹی جاتی رہیں اور یوں جرائم پر جرائم ہوتے رہے سنگین سے سنگین وارداتیں ہوتی رہیں اور کیس داخل دفتر ہوتے رہیں جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ ہر مقتدر حلقے کا کام ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ خود ہی اپنی جانب سے ایک فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تحقیق کو غیر ضروری خیال کرکے خود سزا کا حکم بھی سنادیتا ہے اور جب تک اسکی اپنی سوچ کے مطابق نتائج بر آمد نہ ہوں وہ اپنے فیصلے پر اڑا رہتا ہے۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا اور امریکہ جو دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت ہے اس نے نائن الیون کے واقعے کا سارے کا سارا ملبہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ڈال کر پورے عالم اسلام کی زندگیاں اجیرن بنا کر رکھ دیں اور تا حال اس کا غصہ کم ہو کر نہیں دے رہا۔ یہ ویسا ہی رویہ ہے جو ہر طاقت ہر کمزور پر روارکھتی ہے خواہ اس میں ہم خود بھی کیوں نہ شامل ہوں۔

ہمارا عالم یہ ہے کہ کسی بھی مقام پر ہم بہادری، جواں مردی اور غیرت کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار و آمادہ ہونے کیلئے راضی ہی نہیں ہیں۔ غیرت و حمیت تو دور کی بات ہے، ہم اس درجہ پستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ جو طاقت بھی ہمیں آنکھ دکھا تی ہے یا ہمارے سامنے کھنکھناتے سکے پھینکتی ہے ہم اسی کے قدموں سے جا لپٹتے ہیں اور اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ تشریف لائے تو ہم نے سارے کاموں سے ہاتھ اٹھاکر اس کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کے فوراً بعد چین کے وزیر خارجہ کا تین روزہ دورا ہوا اور ہماری ذہنی کشمکش میں اضافہ ہو گیا۔ امریکہ نے جو کچھ کہا اس میں سے چند باتوں کی خبر عوام تک ضرور پہنچی جس میں “ڈومور” کی راگنی بھی شامل تھی لیکن یہ بات اب تک سیغہ راز ہی میں ہے کہ ایسا کیا اہم ہو گیا تھا کہ امریکا کے بعد چین نے چینی وفد کا پاکستان بھیجنا ضروری خیال کیا اور وہ بھی تین دنوں کیلئے۔

ان دونوں دوروں کے بعد جو بحث سامنے آرہی ہے وہ بہت ہی خطرناک صورت حال کی کہانی سنا رہی ہے اورلگتا ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کو چین کا پاکستان میں داخل ہو کر اس کی خوشحالیوں میں شریک ہونا پسند نہیں اور چین کیلئے بھی اب واپس لوٹنا بہت مہنگا پڑے گا۔ وہ یہاں کھربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ کر چکا ہے اور بے شک اس انویسمنٹ کے پس پردہ اس کے بھی مقاصد ہوں گے۔ واپس ہوجانا بھی اب شاید اس کی عزت نفس کا معاملہ بن جائے اس لئے وہ یقیناً پہلے تو بڑی سے بڑی آفر کریگا اور بصورت دیگر بھی بہت آپشن رکھتا ہوگا۔ اب پاکستانی حکومت اس کشمکش کا شکار ہے کہ امریکہ کی “صاف صاف” بات پر عمل کرے یا چین کی “ظاہرہ یا پوشیدہ” پیشکش کو قبول کرے۔ یہی وہ اہم فیصلہ ہے جو بہر صورت پاکستان کو کرنا ہے اور جو بھی ٹائم پیریڈ اسے ملا ہوگا اسی میں ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔ یہ ہے وہ کشمکش جو بہر حال نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں کو در پیش ہے۔

کڑے فیصلے کرنے کے لئے ہمت، حوصلہ، صبر، استقامت، جرات، بہادری، ایمان کی پختگی، غیرت اور حمیت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان ہی سارے اوصاف کا ہونا “مدینہ” جیسی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کیلئے ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک وصف بھی کم ہوا یا یہ سارے اوصاف خام ہوئے تو مدینہ کی ریاست تو دور کی بات ہے البتہ “یثرب” کے دور کی ریاست ضرور بنائی جا سکتی ہے۔

میں بہت لمبی چوڑی بات نہیں کرتا۔ مدینے والی ریاست کے ایک بہادر اور دلیر کا ایک قصہ سنا کر اپنی بات ختم کرتے ہوئے اتنا عرض کرتا چلوں کہ کسی کے آگے بھی جھکنے کی بجائے اسی طرح سر کشیدہ کرکے دکھا سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ جس ذلت کو اپنا شعار بنا چکے ہو اسی انداز میں زندگی گزارتے رہو کہ شاید اب یہی ہمارا مقدر ہے۔ یہ واقعہ میرے ایک بہت پیارے دوست نے مجھے واٹس اپ پر بھیجا تھا جس کو من و عن ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ اللہ مجھے بھی اور میرے دوست کو بھی جزائے خیر سے نوازے (آمین)۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم (آج کل کے امریکہ سے بھی زیادہ طاقتور ملک) سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔ عبد اللہ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو انکی ذہانت سے حیران رہ گیا، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا

قیصر: نصرانیت قبول کر لے تجھے رہا کر دوں گا۔

عبد اللہ: نہیں قبول کروں گا۔

قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تجھے دے دوں گا

عبد اللہ: نہیں۔

قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تجھے حکمرانی میں شریک کروں گا

عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباء و اجداد کی مملکت، عرب و عجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔

قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا۔

عبد اللہ: مجھے قتل کر دے۔

قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے (ڈرانے کے لیے ) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔

جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔ ۔ عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔

جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین و جمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہرہ کرے۔ اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔

جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔ اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!

جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا۔ قیصر غصے سے پاگل ہونے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اللہ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے۔ آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا- یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاؤ معاف کر دوں گا۔

عبد اللہ نے کہا: نہیں۔

قیصر: تو پھر رویا کیوں ؟

عبد اللہ: اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔ ۔ میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔ یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں۔

عبد اللہ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔

قیصر: ٹھیک ہے۔

عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔

جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں