شربت گلہ، ماضی قریب کے جھروکے سے

                مونالیزہ ثانی، شربت گلہ ملک بدر کردی گئی تھی۔

                جرم یہ تھا کہ وہ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ پر پاکستانی شہری بنی ہوئی تھی اور پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی جاسوسی کر رہی تھی۔

                امکان کوئی بھی ہو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک بات جو سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ اس کا جعلی شناختی کارڈ کیا خود اس نے بنایا تھا؟ ۔۔ اور ۔۔ اگر ایسا ممکن ہے کہ نادرا کا کوئی کارندہ اپنا شناختی کارڈ از خود بنا سکتا ہے تو پھر کیا وہ پہلی اور آخری خاتون تھی؟۔

                پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ شناختی کارڈ اس جگہ، شہر یا علاقے میں نہیں بنا کرتے جہاں ایک شہری اپنے کوائف جمع کرا تا ہے بلکہ وہ ساری معلومات ہیڈ آفس پہنچا دی جاتی ہیں جہاں اس کی مزیدچھان بین کے بعد کارڈ بنایا جاتا ہے۔

                اول تو پہلے ہی مرحلے میں کسی بھی قسم کا غلط اندراج ممکن نہیں، اگر پہلا پہلا کارڈ ہے تو اس کے لئے بہت سارے اندراج اور بھی ضروری ہوتے ہیں جس میں پیدائش کا سرٹیفکیٹ لازماً ہوتا ہے اور وہ بھی خود نادرہ کا جاری کردہ ہوتا ہے، والدین کے ناموں کا نادرا کے ریکارڈ میں ہونا ، ”ب“ فارم وغیرہ جیسی اور بیشمار ضروری معلومات۔ پھر وہ ساری معلومات اسلام آباد ارسال کردی جاتی ہیں، وہاں ان کی چھان بین اور بھی باریک بینی سے کی جاتی ہے اور ان تمام فراہم کردہ معلومات میں سے کوئی ایک بھی غلط یا مشکوک ہو تو ایسے کارڈ کسی بھی صورت نہیں بن سکتے اور ان سب باتوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کارڈ کسی آخری اہم ذمہ دار عہدیدارکے دستخط کے بغیر بن ہی نہیں سکتا۔

                یہ تو اس کارڈ کی بات ہے جو کسی کی پیدائش کے بعد اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے کے بعد بنایا جاتا ہے۔ خاتون کے ساتھ تو ایک اور معاملہ بھی بہت اہم ہوتا ہے وہ شادی کے بعد شوہر کے نکاح نامے اور طلاق یا خلع کے بعد طلاق یا خلع کی دستاویزات کا نادرا میں اندراج جیسے ضروری کوائف ہیں، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ مردوں سے زیادہ خواتین کے شناختی کارڈ کا حصول اور بھی زیادہ دشوار گزار کام ہوتا ہے۔

                شربت گلہ کے جاسوس ہونے پر مجھے نہ تو بے یقینی ہے اور نہ ہی کسی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی فرد سے کوئی ہمدردی، بات صرف اتنی سی ہے کہ جو کام شربت گلہ کا تھا ہی نہیں ، یعنی کارڈ بنانا، اس کا الزام صرف اس کے سر کیوں؟ ۔ شربت گلہ کی طرح نہ جانے کتنے ہی افراد ایسے ہونگے جو جعلی شناختی کارڈ بنانے کی کوشش کرتے ہونگے اور ان میں سے کچھ ناکام بھی ہوجاتے ہونگے اور کچھ کامیاب بھی۔ جو ناکام ہوجاتے ہیں وہ کیوں ناکام ہو جاتے ہیں؟ اور۔۔۔ جو کامیاب ہوجاتے ہیں وہ کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں؟ یہ ہے وہ غور طلب بات جس پر اگر سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو پھر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ پاکستان کا مستقبل کتنا بھیانک ہونے والا ہے۔

                میں نے جن جن مراحل کا ذکر کیا اس سے قارئین کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اس سارے تسلسل میں کتنے محکمے شامل ہیں اور خود نادرا کے کتنے دفاتر سے گزر کر کارڈ بنانے کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شربت گلہ کے ملک بدری کے ساتھ ہی کتنے اور ذمہ داروں کی نوکریاں ختم کرکے ان کو جیل بھیجا گیا؟۔۔یا۔۔ ان میں سے کتنوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا؟۔

                یقیناً اس کا جواب ”نفی“ میں ہوگا اور جب ”نا“ ہی اس کا جواب ہے تو پھر ایک شربت گلہ ہی کیا ہزاروں ”شربت گلائیں “ اور لاکھوں ”شربت گل“ نہ صرف عام شہریوں کے شکل میں پاکستان کے گلی کوچوں اور اہم و غیر اہم ، بے حس اور حساس اداروں میں اور خود نادرا کے اپنے محکمے کے اندر موجود ہونگے جو اس ملک کی جڑیں دیمک کی طرح کھوکھلی کر رہے ہونگے۔

                اس کو اگر میں المیہ کہوں تو بیجا نہیں ہوگا اس لئے کہ ہمارے سابق وزیر داخلہ ”چودھری نثار“ از خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ نادرا نے ایک دو نہیں لاکھوں جعلی کارڈ جاری کئے ہوئے ہیں، کون کہہ رہا ہے!!! ملک کا سابق وزیر داخلہ ۔۔۔ اس کے باوجود کتنے لاکھ ذمے داروں کی گرفتاری عمل میں آئی؟۔ جب ذمے دار اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچائے جائیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے سنگین جرم پر قابو پانا جا سکے؟۔

                سابق وزیر داخلہ نے ایک بڑا کام یہ کیا تھاکہ آتے ہی موبائیل فونز کی سموں پر ساری قوم کو قطار میں کھڑا کر وا دیاتھا۔ اس سے یہ بات تو بیشک ہوئی کہ کئی کروڑ سموں کی تصدیق نہ ہونے کے سبب ان سموں کو تلف کردیا گیا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ کیا وہ ساری سمیں جعلی تھیں؟ ۔۔ یا ۔۔ وہ تھیں جو عرصہ دراز سے کسی کے بھی استعمال میں نہیں تھیں؟ ۔۔یا ۔۔وہ واقعی جعلی ہی تھیں۔۔۔ اگر جعلی تھیں تو جن جن کے نام اور شناختی کارڈز پر وہ سمیں جاری ہوئی تھیں ان کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی؟۔ سموں کو جاری کرنے والی موبائیل نیٹ ورک چلانے والی فرموں کے ذمہ داروں پر کوئی مقدمہ بنا؟ کوئی گرفتاری عمل میں آئی؟ کسی کو نوکری سے نکالا گیا اور کسی فرم کا لائسنس منسوخ ہوا؟ اگر یہ سب نہیں ہوا تو پھر اتنا سب کچھ کرنے کا کیا فائدہ ہوا یا ہوگا؟ بس اتنا ہی کہ ماضی کی سمیں بند ہو گئیں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ آنے والے دنوں کے لئے کھڑکیاں اور دروازے تو اسی طرح کھلے کے کھلے ہیں۔

                شربت گلہ کے سلسلے میں سب سے اہم بات جو اب میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جس خاتون کو خاتون ہونے کا لحاظ کرنے کی بجائے جس انداز کے ساتھ اس کو ملک بدر کیاگیا تھا، اس سے ہزاروں گنا عزت اورتعظیم کے ساتھ افغانستان میں اس کا استقبال کیا گیا۔ ایسا استقبال جیسا غیر ملکی سر براہوں کا ہوتا ہے یا پھر شہنشاہوں کا۔

                افغانستان کے صدر نے اس کو اپنے صدارتی محل میں بلایا، وہ استقبال کے لئے تنہا بھی نہیں تھے، ان کی پوری ٹیم وہاں موجود تھی اور شربت گلہ کے بچوں کے سروں پر افغان حاکم کا ہاتھ تھا جو ایک جانب یہ پیغام دے رہا کہ تھا کہ تم (شربت گلہ اور اس کی اولاد) اپنے آپ کو بے چھت اور راندہ درگاہ مت سمجھنا اور دوسری جانب پاکستان کے لئے یہ پیغام تھا کہ شربت گلہ کا اس طرح ملک بدر کیا جانا گویا افغان یا افغان حکومت کی عزت و بے عزتی کا مسئلہ ہے اور جب معاملہ عزت اور بے عزتی کا بن جاتا ہے تو جواب میں کیا کچھ ہو سکتا یا کیا جاسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل بھی نہیں۔ گویا ہماری بہت زیادہ عجلت کچھ اور گل بھی کھلا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے کئی سیاست دانوں نے تحمل سے کام لینے کا کہا بھی، پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ افغان اور پاکستان کے اچھے تعلقات کے پیش نظر شربت گلہ کی ملک بدری کو التوا میں بھی ڈال دیا گیا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ راتوں رات اس کو افغانستان کے حوالے کئے جانے میں کیا بہتری نظر آئی ۔

                سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان دشمنی میں ایک افغان جاسوسہ کو تو آپ نے ملک بدر کردیا لیکن وہ پارٹیاں، یا پارٹیوں میں شامل نامی گرامی رہنمایان قوم جو کھل کر افغان حکومت اور افغانیوں کی پشت پناہی سر عام اور وہ بھی بڑے بڑے جلسوں میں کرتے نظر آتے ہیں، حکومت پاکستان اور حکومت پاکستان کے حساس ادارے ان کے خلاف کوئی سخت کاروائی کرتے نظر کیوں نہیں آتے اور وہ جو ہزاروں افغانی پاکستانی جعلی شناختی کارڈ اور بغیر کارڈ کے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے لئے کوئی مثبت پالیسی بنا تے نظر کیوں نہیں آتے؟

                ماضی قریب ہی کی بات ہے، اسلام آباد کو بند کرانے کی سلسلہ میں جب وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ ، اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لئے جلوس لیکر آرہے تھے اس جلوس کے شرکا بہت واشگاف انداز میں ”آزادی، آزادی، لے کے رہیں گے آزادی، مانگ رہے ہیں آزادی“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ جلوس کسی معمولی فرد کی قیادت میں آزادی کے نعرے نہیں لگا رہا تھا بلکہ اس کی قیادت ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کر رہے تھے۔ یہ آزادی کے نعرے کیا کسی بغاوت میں شمار نہیں ہوتے؟ کیا ایسے نعرے بلند کرنے والے کسی دوسرے ملک کے آلہ کار نہیں بن سکتے ؟ اور کیا خیبرپختون خواہ کے حکومتی سربراہ پر کسی بھی قسم کا مقدمہ نہیں بنتا اور کیا اب بھی اس کاآخری وقت تک وزیر اعلیٰ بر قرار رہنا پاکستان کے لئے کسی بھی قسم بھی خطرے کی علامت نہیں تھا؟۔ منظور پشتین کیا پاکستان سے پیار و محبت کا اظہار کر رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے جلوس کیا پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط کر رہے ہیں؟۔ یہ اور ایسے ہی بہت سارے سوالات ہیں جن کا عملی جواب نہیں دیا گیا تو آنے والا وقت کوئی اور ہی کہانی سناتا نظرنہیں آتا ؟۔

                ایک جاسوسہ کے استقبال کے لئے پوری افغان قوم اور اس کا سربراہ اپنی اپنی نشستوں سے کھڑا ہو کر استقبال کر رہا ہوتا ہے اور ہمارا عالم یہ ہے کہ اگر ہمارادشمن ملک ہمارے کسی شہری کا مذاق میں بھی نام لے لے تو ہم اس فرد کو زمین میں دفن کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور اگر بھارت کسی کے کوئف طلب کرے تو ہم اس کے وہ کوئف بھی فرام کردیتے ہیں جو اس کے اجداد کو بھی معلوم نہیں ہوتے، چنانچہ ”عامل کانسی“ اور ”اجمل قصاب“ کے خلاف معلومات فراہم کرنے میں ہم نے لمحہ بھی نہیں لگایاتھا۔

                ایک جانب افغان حکمرانوں کا رویہ اور دوسری جانب ہمارا رویہ؟ یہ ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر جتنا بھی سر پیٹا جائے وہ کم ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں