خلائی مخلوق

            جب کوئی بات بہت ہی زباں زدِ عام ہوجائے تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کی حقانیت کو قبول کر لیا جائے یا پھر جس کی جانب اشارہ ہے وہ ایک دن کھل کر اس بات کی وضاحت کرے کہ وہ کسی بھی قسم کے اختلال میں شریک جرم نہیں ہے۔ اب جس مقام پر پاکستان کھڑا ہے وہاں محض زبانی ردوقبول ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ بات نہایت ضروری ہوگی کہ عملاً بھی اس بات کا مظاہرہ کیا جائےا کہ “خلائی مخلوق” ملک کے کسی بھی سیاسی نظام میں نہ تو مخل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی پالیسیاں آئین اور قانون سے ماوریٰ ہیں بلکہ وہ کوئی بھی ایسا کام کرنے کا تصور ہی نہیں رکھتیں جو آئین و قانون سے بالاز تر ہو۔

            مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نادیدہ قوتیں جن کو اب خلائی مخلوق کے نام سے پکارہ جا رہا ہے، 1958 سے تا حال حکومتی امور میں اس بری طرح ملوث رہی ہیں کہ پاکستان ہی کیا دنیا میں بھی اس تاثر کو ختم کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں رہ گیا کہ محض زبانی وضاحتیں کرنے سے دور ہو جائے۔ اب اس تاثر کوبھی زائل کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل کچھ مشکلیں بڑھاتے تو نظر آرہا ہے مشکلات میں کمی کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔

            کسی زمانے میں کبھی کبھی کوئی ایک آدھ صحافی، تجزیہ نگار، مبصر یا کوئی سیاسی لیڈر “خلائی مخلوق” کا ذکر کردیا کرتا تھا لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی اور اس کا رہنما، مذہبی پارٹیاں اور ان کے رہبران، مبصر، مقرر، تجزیہ کار اور نقاد ایسا ہو جو جلی اور خفی انداز میں یہ ذکر کرتا نظر نہیں آئے کہ “خلائی مخلوق” کا نہ صرف پاکستان کی سیاست میں موجود ہے بلکہ اب یہ سیاسی معاملات میں اس درجہ آگے جاچکے ہیں کہ ان کی مداخلت کو روکنا یا ان کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا شاید ہی ممکن ہو۔

            ممکن ہے میری یہ بات قابل گرفت بھی ہو اور لائق تعزیر بھی لیکن میں چاہونگا کہ ایک بار اس کی وضاحت ہوہی جائے کہ “خلائی مخلوق” محض قیاس ہے، سیاست دانوں کا وہم ہے یا پھر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں۔

            ملک میں تابڑ توڑ لگائے جانے والے بظاہر تین مارشل لاز لیکن عملاً پانچ مارشل لاز کو تو بہر کیف کسی بھی طرح نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا۔ پانچ مارشل لازوالی بات پر لوگ ضرور حیران ہونگے لیکن ان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایوب خان کا دھڑم تختہ بھی ایک “چیف” ہی نے کیا تھا اور ضیاالحق نے اپنے ہی مارشل لا پر ایک اور مارشل لا لگایا تھا۔ ان مارشل لاؤں نے نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا بلکہ آئین کو بھی روند ڈالا تھا۔ یہی نہیں بلکہ آئین اور قانون کا حلیہ تک بگاڑ کر رکھ دیا تھا اور بگڑا ہوا آئین ہی اب تک وہ ہتھیار ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی آئینی حکومت اپنا مقررہ وقت کسی رکاوٹ کے بغیر آرام و سکون سے گزارنے میں کامیاب ہو ہی نہیں پاتی۔ کہیں ان کو صدر کے بے پناہ اختیارات لے بیٹھتے ہیں اور کہیں آئین کی کوئی شق ان کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ آئینی طور پربننے والی ہر حکومت کے پاس سر پرچمکتی اور لٹکتی ہوئی دو دھاری تلواروں کی موجودگی ہی ھے جو اسے شاید ہی اپنی مرضی سے کام کرنے کا موقعہ فراہم کر سکے۔

            کسی بھی ملک کے دو بادشاہ ہو ہی نہیں سکتے لیکن جہاں دو دو بادشاہتیں قائم ہو جائیں وہا بہر کیف کسی ایک کا تاج و تخت کا کام تمام ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی اسی معرکہ آرائی سے بھری پڑی ہے۔ اسلامی دور کے اوائل سے لیکر تا حال طاقتیں مسلسل طاقتوں سے ٹکراتی رہی ہیں اور اس بات کا شمار ہی نہیں کہ اس رسہ کشی میں کتنی انسانی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ کبھی کبھی کچھ تھم تو ضرور گیا ہے لیکن ابھی تک جاری و ساری ہے۔

            نادیدہ قوت سے خلائی مخلوق کی کہانی بننے کی یہی حقیقت ہے۔ پہلے تو ہوتا یوں تھا کہ یا تو سول حکومت ہوتی تھی یا پھر ملک مارشل کا شکار ہوجاتا تھا لیکن جب سے قانونی مو شگافیوں کا سلسلہ چلا ہے، خلائی مخلوق نے شاید فیصلہ کر لیا ہے کہ انھیں ہر معاملے میں سامنے آنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ جن مقاصد کو پس پشت رہ کر حاصل کیا جا سکتا ہے تو سامنے آنے کی ضروت ہی کیا ہے۔

            کسی زمانے میں جب تک ایک با اختیار “صدر” کو قابو میں رکھ کر استعمال کیا جا سکتا تھا کیا گیا۔ سیاست دانوں کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے صدرکے اختیارات اگر ختم کرکے وزیر اعظم کو مضبوط کیا گیا تو آئین کی شق 62-63 کو استعمال کرنا شاید اس سے بھی زیادہ سہل ہو گیا۔ مقصد صرف اپنی “مضبوطی” کا احساس دلانے اور ہر آئینی حکومت کو اپنے قابو میں رکھنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں بصورت دیگر لٹکی ہوئی تلواروں کا استعمال کوئی “تربیت یافتہ” اداروں سے زیادہ کون جان اور سمجھ سکتا ہے۔

            آئین کی شق 62-63 سے اچھی اورخاص طور سے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے حوالے سے، کوئی اور شق اچھی ہی نہیں سکتی لیکن اس کا استعمال الیکشن کے فارم کی قبولیت سے قبل ہونا چاہیے۔ جب اتنی اہم بات الیکشن سے قبل نظرانداز ہوجائے اور بعد میں کسی ایسے فرد پر اس کا اطلاق ہو جس پر حکومت ہی کا انحصار ہو، کسی حد تک ریاست اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے جو بہر حال بن بھی رہا ہے۔ پھر یہ کہ اگر اتنے اہم فیصلوں میں بھی دباؤیا جانب داری کا پہلو چھلک رہا ہو تو پھر اور بھی زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔

            نواز حکومت دو مرتبہ نہایت مضبوط ہونے کے باوجود بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی جبکہ زرداری حکومت فقط ایک چھوٹی سی چھوٹی پارٹی کی بغاوت پر ڈھیر ہوسکتی تھی لیکن اپنے 5 سال سکون سے کاٹ گئی۔ کیا یہ بات کسی شک کو مہمیز دیتی نظر نہیں آتی؟۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی مداخلت ہو یا “خلائی” مداخلت، اس کے پیچھے حکومتوں کی کمزوریاں ہی ہوتی ہیں یا سیاسی لیڈروں کی بیوقوفیاں لیکن کیا پاکستان کے وہ ادارے جو اس قسم کی کسی بھی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کیلئے تیار و آمادہ رہتے ہیں وہ ہر کمزوری اور کوتاہیوں سے مبرہ ہیں؟ کیا ہتھیار ڈالنے سے لیکر کارگل کی واپسی اور شمالی علاقوں کے اپنے ہی پاکستانیوں کے خلاف اٹھایاجانے والا ہر قدم لغزشوں سے پاک ہے؟۔ ہزاروں کی تعداد میں غداری کے الزام میں پکڑے جانے والے سارے کے سارے افراد کسی عدالت میں پیش کرکے ان کو قرار واقعی سزاسے گزارے بغیر ان کو قتل کردینا یا اب تک “لاپتہ” رکھنے جیسا عمل کیا کسی تحقیق طلب نہیں ہے؟۔ کیا عدعالتیں ستر برس سے ہر فیصلہ میرٹ پر کر رہی ہیں؟، کیا عدالتوں میں پیش کئے بغیر لاکھوں لوگ 30 تیس سال سے قید و بند کے دن نہیں گزار رہے ہیں؟۔ کیا انصاف اتنا مہنگا نہیں ہو گیا ہے جس کیلئے قارون کا خزانہ بھی کم پڑجاتا ہے؟۔ وہ کونسا محکمہ ہے جس میں بڑے بڑے سوراخ نہیں ہیں؟۔ کیا لاکھوں مقدمات عدالتوں میں اب تک پایہ تکمیل تک پہنچنے کے منتظر نہیں ہیں؟۔ اگر یہ ساری باتیں غلط اومحض بہتان ہیں تو میرے لئے ہر وہ سزا جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہو میں اس کا سزاوار لیکن اگر یہ باتیں مبنی بر حقیقت ہیں تو پھر ہر ادارے کو کسی دوسرے کے امور میں مداخلت کرنے سے پہلے اپنی اپنی کوتاہیوں کو دور کرنا ہوگا یا باالفاظ دیگر گڑ کھانے سے منع کرنے سے پہلے گڑ کھانا چھوڑنا ہوگا۔

            میں گفتگو کے آغاز میں ہی یہ بات کہہ چکا ہوں کہ جب کوئی بات زباں زد عام ہوجائے تو اس کے درست ہونے سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا اور یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ پہلے “خلائی مخلوق” کی باتیں کرنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے لیکن اب ان کا شمارممکن سے سوا ہو گیا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے سر براہ، کیا نواز شریف اور ان کی پارٹی، کیا اینٹ سے اینٹ بجانے والے، کیا لسانی بنیادوں پر بننے اور ابھرنے والی پارٹیاں، کیا ریٹائیرڈ فوجی افسران، کیا پارٹیوں کے اعلیٰ عہدے پر متمکن باغیانہ طرز عمل اختیار رکھنے والے رہبران قوم، کیا کراچی کی ٹوٹی ہوئی پارٹی کے سارے مغبچے، کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حاضر ڈیوٹی صاحبان اور کیا ملک سے باہر کی بیشمار این جی اوز، سب ہی یک زبان ہوکر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں “خلائی مخلوق” کا کردار مسلسل اپنا دائرہ عمل وسیع سے وسیع تر کرتا جا رہا ہے۔

            تھوڑی دیر کیلئے اس بات کو فرض ہی کرلیا جائے کہ ایسا کہا اور سنا جانا غلط ہے اور یہ سب وہم و گمان کے علاوہ اور کچھ نہیں تو کوئی یہ بتائے کہ 2013 کے الیکشن کے بعد پی پی پی پر جو ناقابل برداشت بوجھ تھا وہ ہوا سے بھی زیادہ ہلکا کیوں ہو گیا اور جو پارٹی (ن لیگ) پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اچھا کام کرتی نظر آرہی تھی وہ اچانک چاروں جانب سے کس لئے گھری ہوئی نظر آنے لگی؟۔

            رات دن الیکٹرونک میڈیا اگر کسی کی ساکھ کو خوب سے خوب تر بنانے میں نظر آرہا ہے تو وہ دو ہی ادارے ہیں، ایک “خلائی مخلوق” اور دوسرا ادارہ عدلیہ کا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے الیکٹرونک میڈیا کو اس بات کی ضرورت پڑگئی ہے کہ ان اداروں کی ساکھ عوام میں بہتر کرے؟۔ کوئی تو بات ہوگی، کوئی تو ایسا سبب ہوگا جس کی وجہ سے ان اداروں کیلئے یہ بات ضروری ہو گئی ہوگی کہ ان پرفوکس کیا جانا ضروری ہو گیا ہو؟۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس کے پسِ پشت ان کی بیشمار ایسی کوتاہیاں ہوں گی جن کو دور کرنے کیلئے یاتو میڈیا کو اس بات کی ضرورت ہوگی یا پھر اداروں کیلئے ایسا کرنا ضروری ہوگا۔

            مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی چینل پر بیٹھ کر کئی قابل ذکر لیڈروں اور تجزیہ نگاروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ مشرف دور میں لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کا اور افواج پاکستان کا یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ وردی میں عوام کے سامنے جانے سے گریز کیا کرتے تھے۔ ثابت کرنا یہ ہوتا تھا کہ پی پی پی یا نواز حکومت کے دور میں ان کی پرانی حیثیت کو بحال کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی پرانی ساکھ بحال ہو چکی تھی تو پھردوبارہ سے ان کی حیثیت کو کیا اور کیوں ہو گیا؟۔ پہلی حیثیت کیوں خراب ہوگئی تھی اور اب موجودہ حیثیت کیوں مجروح ہوگئی ہے؟۔ یہ سب باتیں اس بات کی جانب ایک واضح اشارہ ہے کہ کوئی ادارہ بھی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے خالی نہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اٹھائی جانے والی ایک انگلی سے پہلے ان تین انگلیوں پر غور کیا جائے جو خود اپنی ہی جانب اشارہ کر رہی ہوں۔

            خلائی مخلوق کا صرف نام بدلا ہے ورنہ تو اس نام سے پہلے بھی اس کے کئی نام رکھے گئے ہیں جس کو بھی ہر عام و خاص میں بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔ ہر وہ گروہ جو آج اس کی خالفت کرتا نظر آرہا ہے یا اس سے صرف نظر کئے ہوئے ہے وہ کل تک ایسا ہی کہتا رہا ہے بلکہ اس کی زبان میان گفتگو اب بھی پھسلنے سے باز نہیں آتی۔ کراچی کے مصطفیٰ کمال ہوں یا پی پی پی کے زرداری، نواز ہوں یا اچکزئی، الطاف ہوں یا ان کی کوکھ سے پھوٹے ہوئے شرارے، فضل الرحمن ہوں یا عمران خان، وہ کون ہے جواسی قسم کی لایعنی باتیں نہ کرتا، اینٹ سے اینٹ بجاتا، “تھے” کہتا یا پیشاب خطا ہوناجانے کی باتیں کرتا نظر نہیں آیا اور آرہا ہے۔ یا تو یہ ہزاروں لوگ غلط ہیں یا پھر ادارے سے کوئی کوتاہی ہو رہی ہے۔ یہ ایسا ابہام ہے جس کا ہر صورت میں اختتام ہوجانا چاہیے۔

مارشل لا یا فوجی حکومت کوئی ایسی چیز نہیں جس کو غلط کہا جائے۔ ہر قوم کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے اوراس کے حکمران اگر اس کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ بادشاہت ہو یا صدارتی نظام، آمریت ہو یا جمہوریت یا پھر روس چین یا جرمنی جیسی طرز حکومت، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہواور فلاح و بہبود کا خیال رکھنے والی ہو مگر ایک ریاست میں دو حکومتیں ریاست کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاثر کو جس طرح بھی ممکن ہو ختم کیا جائے تاکہ آنے والی کسی بھی حکومت کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا در پیش نہ ہو اور پاکستان آگے کی جانب سفر کر سکے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں