مجرموں کو پکڑا نہیں قابو کیا جاتا ہے

            پوری دنیا میں مجرموں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے علاوہ اب تک کوئی اور بات سامنے نہیں آ سکی۔ پاکستان بھی ایسے ہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے جوکسی مجرم کو اس لئے گرفتار نہیں کرتا کہ اسے اُس کے انجام تک پہنچایا جائے بلکہ اس کو صرف قابو میں کیا جاتا ہے تاکہ اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو مجرم قابو میں نہیں آتے، ان کو قانون کے مطابق سزا دیناممکن ہو سکتا ہے یا ان کے خلاف واقعتاً اتنے شواہد ہوتے ہیں کہ ان کو قرار واقعی سزا دی جاسکتی ہو، ان کو عدالت کے ذریعے سزاوار قرار دلوا دیا جاتاہے اور جن کے لئے اتنے شواہد نہیں ہوتے ان کو کسی جعلی مقابلے میں مروادیاجاتاہے، اپنے ہی ہاتھوں خاتمہ بالخیر کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ زندگی کی آخری سانس تک سلاخوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ یہ طرزِ سفاکیت صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے پوری دنیا میں ایسا ہی ہے اور پھر یہ کہ یہ سب کچھ مجرموں کے ساتھ انفرادی سطح پرہی نہیں ہوتا،، ملکوں اور ملکوں کی سطح پر بھی ہوتا ہے۔

            کسی مجرم سے لیکر گروہوں تک، کسی فرد سے لیکر پارٹی تک اور کسی ایک ملک سے لیکر پوری دنیا تک ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کچھ لوگ اس کو سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے اور کچھ سمجھنے کیلئے تیاروآمادہ ہی نہیں ہیں۔

            اگر انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو کچھ مجرموں کو عدالتیں سزائیں تو برسوں پہلے سناچکی ہو تی ہیں لیکن ان کو ان کے آخری انجام تک کسی خاص موقع پر ہی پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح اجتماعی سطح پر بھی کچھ گروہوں، تنظیموں اور پارٹیوں کی مجرمانہ سر گرمیوں کو توبہت پہلے آشکار کر دیا جاتا ہے لیکن ان پر پابندی لگانے یا ان کے خلاف بھر پور کارروائی کرنے کیلئے کچھ مخصوص اوقات کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ان کو دباؤ میں لایاجائے اور کوشش کی جائے کہ صفحہ ہستی سے مٹانے کی بجائے ان کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کیا جائے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کی راہیں اتنی مسدود کردی جائیں کہ وہ کھل کر کوئی کام نہ کر سکیں۔ پھر اورکسی مناسب موقعہ پر ان کو دوبارہ ابھارا جائے اور استعمال کیا جا ئے۔ یہی حال ریاستوں اور ریاستوں کے درمیان ہے۔ اس کی بیشمار مثالیں اور شواہد موجود ہیں، ملک کے اندر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی، لیکن فی الحال ہم ان سے صرف نظر کرکے اصل موضوع کی جانب آتے ہیں ورنہ بات طوالت کا شکارہوکر کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔

            ہم بہت دور نہیں جاتے، کچھ ہی دن قبل پاکستان کی ساری توپوں کا رخ امریکہ کی جانب تھا۔ اخبارات، ہر قسم کا میڈیا، ٹی وی چینل، سرکار اور سرکاری ادارے امریکہ کو ہر حوالے سے اپنے جوتوں کی نوک پر رکھے ہوئے تھے بالکل اسی طرح صدر امریکہ کی زبان کے سارے میزائلوں کا رخ پاکستان کی جانب تھا اور ہر لمحہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بھی وقت امریکہ پاکستان پرٹھیک اسی طرح حملہ آور ہوجائے گا جیسے افغانستان پر ہو گیا تھا۔ شاید افغانستان پر حملہ کرنا کسی حد تک دشوار گزار تھا اس لئے کہ امریکہ کی مدد کیلئے، اُس کو اپنے ملک میں زمین دینے، ہوائی اڈے قائم کرنے اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کیلئے نہ تو ایران تیار تھا اور نہ ہی ترکی اور یہ سب کچھ افغانستان میں موثر کارروائی کیلئے نہایت ضروری تھا۔ اب یا تو بھارت کو استعمال کیا جاسکتا تھا یا پھر امریکہ کیلئے پاکستان ضروری تھا۔ یہاں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت گوکہ پوری طرح تیاروآمادہ تھا لیکن جس طرح کے درست نشانے امریکہ افغانستان کی سرزمین پر پاکستان کے راستے لگا سکتا تھا اور ہرقسم کا جنگی اور ضروری سازوسامان جنگ اور اشیا کو وہ زمینی راستے سے افغانستان تک پاکستان کی سر زمین کے ذریعے لا اور لیجا سکتا تھا وہ ہندوستان سے ممکن نہیں تھا۔ اس بات کا قوی امکان بھی موجود تھا کہ پاکستان کے انکار کی صورت میں وہ بھارت سے ساز باز تو کرتا ہی کرتا لیکن پاکستان کی سرزمین پر اپنی آمد و رفت کیلئے کسی زور زبر دستی پر بھی اتر سکتا تھا۔ یہ ایک تکلیف دہ اور غور طلب مسئلہ تھا۔ اس بات کو دعوے سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس وقت کا ”فوجی حکمران“ اور خود ”افواج“ پاکستان کی اس میں کیا مرضی شامل رہی ہوگی لیکن آج تک اس بات کی تحقیق کیلئے نہ کوئی کمیشن بنا اور نہ ہی کمیٹی جو اس بات کا جائزہ لیتی کہ آیا امریکہ کو اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینا، جس کا سلسلہ لاجسٹک کی صورت میں آج بھی جاری ہے، کسی ایک فرد (فوجی حکمران) کا غیر ذمہ دارانہ فیصلہ تھا یا اس وقت کے وہ سارے افسران جو ”مارشل لا“ لگانے کے جرم میں شریک تھے ان سب کا اس میں برابر کا حصہ تھا۔ یہ بات کوئی غیر معمولی نہیں تھی، اگر غور کیا جائے تو سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ ایک بہت ہی بڑی تباہی و بربادی کی بات تھی۔ اگر منصفانہ نظر سے جائزہ لیاجائے تو ان سب باتوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین نہایت ضروری تھا جو بد قسمتی سے نہیں ہو سکا۔ اگر اُس وقت ایسا نہیں ہو سکا تو کیا اب ایسا کرنا ممکن نہیں؟ کیا یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر دانشوروں، سیاستدانوں، لکھاریوں، تبصرہ و تجزیہ نگاروں کو بات کرنی چاہیے تاکہ اس وقت کے ذمہ دار یا ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔

            بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، اور پھر ہوگا یوں کہ وہ گاڑی جو کسی خاص اسٹیشن کیلئے مختص کی گئی ہے وہ پٹڑی سے اتر جائے گی اس لئے میں اصل نفس مضمون کی جانب لوٹتے ہوئے اس بات کو دہرانہ چاہتا ہوں کہ بات انفرادی جرم کی ہو، گروہی ہو، تنظیمی ہویا جماعتی ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس سب کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ان تمام مجرموں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اداروں کے پاس ان کا سارا کچاچٹھا رکھا ہوا ہے۔ جس طرح ہر فرد یا ہر تنظیم یا پارٹی کی کمزوریوں کا علم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہوتا ہے اسی طرح مضبوط مجرموں، تنظیموں اور پارٹیوں کے پاس بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کرتا دھرتاؤں کی بہت ساری کمزوریرں کی خبر ہوتی ہے۔ روزمرہ کی پبلک میٹنگوں، ریلیوں، جلسے اور جلوسوں میں دیئے جانے والے بیانات اورڈھکی چھپی دھمکیوں سے اس بات کا علم ہر خاص و عام کو ہو ہی جاتا ہے کہ ادارے ہوں یا رہبران قوم، ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اداروں کو ایک ایڈوانٹیج یہ ضرور حاصل ہوتا ہے کہ ان کے پاس یا تو قانون کی یا ریاست کی طاقت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی وقت کسی بھی مضبوط سے مضبوط پارٹی، تنظیم یا فرد کو اپنے قابو میں کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا بیک وقت سب کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان میں سے کسی ایک کو کسی دوسرے کی بیخ کنی کیلئے استعمال کر نا زیادہ بہتر تصور کرتے ہوئے کسی کو بھی ابھارا یا دبایا جانا ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔ اگر اس کی بجائے مجرم کو خواہ وہ تنہا ہو یا اس کا تعلق کسی گروہ سے ہو، اس کے ساتھ قرار واقعی کارروائی کرکے انجام کارتک پہنچانے کی پالیسی پر عمل کیا جائے تو ایک جانب پوری دنیا کوانصاف ہوتا نظر آئے گا اور دوسری جانب ملک کے گناہ گاروں کو احساس ہو جائے گا کہ جرم جرم ہوتا ہے اور جو بھی اس کا مرتکب ہوگا وہ سزا تک ضرور پہنچے گا۔

            اس بات کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا حوالہ ضروری ہے کہ کچھ ماہ قبل پاکستان کی نااہل ترین حکومت سندھ کی تھی، عسکری اور ”میڈیائی“ سطح پر ایسا لگتا تھا کہ سندھ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ ملک میں مارشل لا لگے یا نہ لگے، سندھ میں گورنر راج ضرور نافذ ہو جائے گا۔ پی پی پی حکومت، اس کی اعلیٰ قیادت اس صورت حال سے اس حد تک پریشان تھی کہ آصف علی زرداری ایک مجلس میں باآواز بلند افواج پاکستان کی ”اینٹ سے اینٹ” بجانے تک کی بات کر بیٹھے۔ وہ ایسا کچھ کہہ تو گئے تھے لیکن ان کو فوری طور پر ملک چھوڑ کر بھاگ جانا پڑگیا تھا۔ شرجیل میمن کے گھر سے دو ارب روپوں کا کیش بر آمد ہوا تھا، ایک وڈیرے کے گھر سے دو سو کلو سونا نکلا تھا اور ایان علی بھی رنگے ہاتھوں پانچ لاکھ ڈالر ملک سے باہر لیجاتے ہوئے گرفتار ہوئی تھی۔ لیکن اب سندھ حکومت ہر دباؤ سے آزادہے، اس کے لیڈر پورے ملک میں آزادانہ گھوم رہے ہیں اور حقیقتاً اینٹ سے اینٹ بجاتے پھر رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بنا ڈیل ہے؟

            جیسا کہ میں نے کہا کہ یہی حال ایک ملک کا دوسرے ملک سے ہے اور خاص طور سے امریکہ کا کسی ملک سے اور خود کسی ملک کا امریکہ سے۔ کل تک پاکستان کے ادارے، حکومت، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا جس امریکہ کی بخیہ ادھیڑنے میں مصروف تھا اب لگتا ہے کہ دل کے جتنے بھی پھپھولے تھے وہ پھوٹ چکے ہیں اور چھالوں کی کھولن سرد پڑچکی ہے۔ یہی صورت حال امریکی صدر ٹرمپ کی ہے کہ جس منھ سے وہ پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے، پاکستان کیلئے وہی منھ پھلجھڑیاں چھوڑرہا ہے۔ کیا سب کچھ کسی جادو گری کی وجہ سے ہو رہا ہے؟۔ کچھ ہی عرصہ پہلے مطلوب افراد ”طالب“ کے حوالے کر دیئے گئے ۔ لگاتار تین ڈرون حملے ہوئے جس کے نتیجے میں کم و بیش تیس افراد ہلاک ہوئے اور زخمیوں کی تعداد بھی ظاہر ہے کم نہ ہوگی لیکن پاکستان کی جانب سے ایسی خاموشی ہے جیسے حشرات الارض مار دیئے گئے ہوں۔ جب صورت حال یہ ہو تو امریکی سرکار کاپاکستان کو داد و تحسین دیناتو بنتا ہی ہے۔

            اگر ملکی سطح پر مجرموں، سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں کی غلط کاریوں پر سزا دینے کی بجائے ان کو اپنے مقا صدکیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہو جائے اور اسی طرح ریاستیں ایک دوسرے کی کمزوریوں، ان کے آپس کے اختلافات، ان کے معاشی حالات اور جغرافیائی حدودکی افادیت یا غیر محفوظیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے اور ان کو مشکلات سے باہر نکالنے جیسے نیک کام کرنے میں اپنی تونائیاں صرف کرنے میں لگ جائیں تو اسی زمین کو رشک صد ہزار فردوس بریں بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہو گا جب ممالک جرم کو صرف جرم سمجھیں، مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دیں اور ساری دنیا کے لوگ اپنے اپنے مفادات کی بجائے ایک دوسرے کے حقیقی مدد گار بن جائیں اور اپنے اندر کی حیوانیت نکال باہر کرکے ”انسان“ بن جائیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں