گرمی اور اموات کا خدشہ

                گزشتہ سے گزشتہ سال گرمی کی شدت نے کراچی میں صف ماتم بچھادی تھی۔ کوئی گلی یا محلہ ایسا نہیں بچا تھاجہاں لوگ اپنے پیاروں کی اموات پر نوحہ کناں نہ ہوئے ہوں۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن دنوں گرمی بہت ہی شدید تھی اور یوں لگ رہاتھا جیسے سورج سوانیزے پر آگیا ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ ایسی گرمی اس سے قبل کبھی پڑی ہی نہ ہو لیکن نامعلوم اُس گرمی نے ایسی قیامت صغریٰ پرپا کی کہ ہزاروں لوگ دوتین دن کے اندر اندر لقمہ ا جل بن گئے۔

                گرمی کا موسم ہو اور گرمی اپنا رنگ نہ جمائے، ایسا ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ کراچی کے حوالے سے ہر فرد و بشر کو یہ بات پلو میں باندھ لینی چاہیے کہ مارچ کے آخر سے شروع ہونے والی گرمی مئی کے وسط تک اہل کراچی پر قیامت ڈھاتی رہتی ہے۔ مئی کے وسط میں جاکر اس کے جنون میں کچھ کمی آنا شروع ہوجاتی ہے اور جون جولائی میں جب پورا پاکستان شدیدترین گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہوتا ہے کراچی کے آسمان پر بادل قدم جما لیتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کئی کئی دن سورج کی شکل نظر نہیں آتی۔ گرمی بہرصورت گرمی ہی ہوتی ہے لیکن بادلوں کی وجہ سے دھوپ میں وہ حدت نہیں ہوتی جو حدت اپریل اور مئی کے مہینوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ بادلوں کے دل کے دل امڈے چلے آنے کے باوجود ایسا کم کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایک بوندبھی ٹپک جائے البتہ پاکستان کے اکثر علاقوں سے بارشیں ہونے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں جو اہل کراچی کے دلوں میں کچوکے لے لے کر انھیں پیغام حسرت و یاس سنارہی ہوتی ہیں۔

                گزشتہ دوتین دن سے کراچی میں موسم بہت شدید ہے اور درجہ حرارت ہر شریف آدمی سے اس کا نام پوچھ رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ دوبرس قبل درجہ حرارت 44 ڈگری تک جا پہنچا تھا اور امسال ابھی تک اس کی پہنچ 44 ڈگری چھو چکا ہے لیکن اب تک گرمی کی شدت سے ہلاکتوں کی ایسی وحشتناک خبر کہیں سے موصول نہیں ہوئی کہ فلاں جگہ اتنے لوگ ہلاک ہوگئے اور فلاں جگہ اتنے۔

                گرمی کا موسم ہو یا سردی کا، ہلاکتوں کا سبب ضرور بنتا ہے یا پھر بیماریاں پھوٹ پڑنے کاسبب بن جاتا ہے لیکن ابھی تک ملک کے کسی بھی حصے سے ایسی خبریں نہیں آئیں جس سے لوگوں میں کی قسم کی تشویش جنم لے رہی ہو۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل کراچی شدید گرمی کے عادی نہیں اور نہ ہی سردی ان کے لئے کوئی اچھا پیغام لے کر آتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ شدید گرمیاں لازماً ان کے لئے قیامت صغریٰ ہی بنتی رہی ہوں۔ ماضی بعید میں بھی کراچی اکثر شدیدترین گرمی کی لپیٹ میں آتا رہا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گرمی کی شدت ہزاروں افراد کے لئے موت کا پیغام لے کر آئی ہو۔

                اس بات کو بار بار بیان کرنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس بات کے حقائق جاننے کی نہ اس وقت سنجیدگی سے کوشش کی گئی اور نہ ہی اب تک اس بات پر غور کیا گیا کہ کیا ہزاروں افراد کی موت صرف اورصرف “ہیٹ اسٹروک”سے ہی ہوئی تھی؟

                کسی نے اس بات تک کی تحقیق ضروری نہیں سمجھی کہ وہ ہزاروں افراد جو اس قیامت کا شکار ہوئے وہ سب کے سب دھوپ میں گھومنے پھرنے سے ہی لقمہ اجل نہیں بنے، ہلاک ہوجانے والے افراد کی اکثریت وہ ہے جو گھروں میں تھی، دفتروں میں تھی، اے سی کمروں میں تھی اور ایسی جگہوں پر تھی جہاں دھوپ یا گرم ہواوں کا کوئی گزر بھی نہیں تھا۔ لوگ وہ بھی ہلاک ہوئے جو دھوپ کی زد میں تھے اور وہ بھی نشانہ بنے جو سایوں اور ٹھنڈی جگہوں پر تھے۔ گرمیاں آئیں تو اس قسم کی خبریں کوئی انہونی بات نہیں ہوتی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔

                کراچی میں کیا گرمی پڑتی ہے، گرمی کااحوال تو کوئی نواب شاہ والوں سے پوچھے، ملتان والوں کی خبر لے، جیکب آباد، سبی، لاڑکانہ اوردادو والوں سے معلوم کرے تب معلوم ہوگا کہ گرمی ہوتی کیا ہے لیکن اتنی قیامت خیزی کے باوجود آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ان شہروں سے شورقیامت بلند ہوا ہو اور دو تین دن میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے ہوں۔

                مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ٹھیک اس قیامت سے ایک دن قبل کراچی میں ایک پر اسراردھماکے کی خبر گرم ہوئی تھی۔ شاید ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہو جس نے ایک ڈیڑھ گھنٹے تک اس دھماکے کی خبر کو گرم نہ رکھا ہو۔ جس جگہ اس دھماکے کی اطلاع دی جارہی تھی وہ علاقہ میرے گھر سے بہت فاصلے پر نہیں تھا۔ دھماکے کی زد میں میرا گھر بھی بری طرح آیا۔ زیادہ تر چینلوں کا قیاس یہی تھا کہ یہ منگھو پیر کے آس پاس کا علاقہ ہے۔ اس بات کی تصدیق شاہراہ نور جہاں پر دوڑنے والی وہ بیسیوں ایمبولینسیس تھیں جو جائے وقوعہ کو تلاش کرنے میں مصروف تھیں۔ وہ صرف ایک دھماکہ ہی نہیں تھا، دھماکے کے ساتھ اٹھنے والا تیز روشنی کا ایک گولا بھی تھا جس نے ایک مرتبہ تو آنکھوں کو خیرہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ٹھیک اگلے روز سے ہی کراچی مقتل گاہ بن گیا اورنہ صرف سردخانے پٹ گئے بلکہ قبرستان کے گورکھن قبریں کھودتے کھودتے تھک گئے اور میتیں کئی کئی دن تک تدفین سے محروم رہیں۔

                بات یہاں پر ہی ختم ہوجاتی تو حیرت و استعجاب کی اٹھنے والی لہر شاید تھم جاتی لیکن وہ سارے ٹی وی چینل جو اپنی ریٹنگ کے لئے لگاتار اس دھماکے پر فوکس کئے ہوئے تھے یوں خاموش ہو گئے جیسے کسی بچے کو زوردارڈانٹ پلاکر خاموش کر دیا جاتا ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ بہت غور طلب ہے کہ اگلے روز اخبارات میں بھی اس واقعہ کو اکہری سطریعنی یک کالمی سرخی تک میں جگہ نہیں مل سکی۔ پاکستان کے تمام چینلوں پر چلنے والی مسلسل ایک خبر جو دھماکے کے حوالے سی تھی اور جس نے آدھے سے زیادہ شہر کو دہلا کر رکھ دیا تھا اور ایمبولینسوں کی ٹی پوں ٹی پوں نے اس ہراس میں اور بھی شدت پیدا کردی تھی، اس خبر کو کس کے کہنے پر اس طرح روک دیا گیا تھا کہ وہ ٹی وی پر تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب کردی گئی تھی ساتھ ہی ساتھ اگلے روز شائع ہونے والے اخبارات میں اپنی درہ برابر بھی جگہ نہ بنا سکی؟۔

                میں آج تک اس بات پر قائم ہوں کہ اتنی بہت ساری اموات محض گرمی کے سبب نہیں ہوئی ہونگی ۔۔ مگر ۔۔ پھر ان اموات کا سبب آخر تھا کیا؟، نیز گزشتہ دن بھی درجہ حرارت 44 ڈگری تھا اور گرم ہواوں کے تھپیڑے بدن کو جھلس کر رکھے ہوئے تھے لیکن دور نزدیک کہیں سے بھی آہ و بکا نہیں سنائی دی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تین سال قبل اسی درجہ حرارت پر پانچ ہزار افراد ہلاک ہو جائیں اور تین سال بعد اسی درجہ حرارت پر کوئی قابل ذکر افسوسناک اطلاع تک نہ ملے؟۔

                میری ناقص عقل میں دو باتیں سماتی ہیں۔ اولاً یہ کسی قسم کی تخریب کاری ہے اور یا کسی ”ٹسٹ“ کاناکام ہوجانا۔

                تخریب کاری اس قیاس پر کہ جس علاقے کی جانب بار بار اشارہ کیا جارہا تھا وہ منگھوپیرہے اور وہاں آس پاس جو چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں ، آماجگاہیں ہیں ان افراد کی جن کا تعلق تخریب کاری سے ہے، ڈاکووں کے گینگ سے ہے یاپھر نام نہادجہادی تنظیموں سے ہے۔ آئے دن ہماری لاانفورسمنٹ ایجنسیاں ان کے خلف کارروائیاں کرتی رہتی ہیں اور اکثر یہ بھی ہوا ہے کہ پولیس یا رینجرز کو وقتی طور پر پیچھے بھی ہٹنا پڑا ہے لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہاں یاتو کوئی ذخیرہ کی گئی شے از خود بلاسٹ ہوئی ہے یا پھر اسے ہماری فضائیہ نے نشانہ بنایا ہے اور جو چیز بلاسٹ ہوئی ہے وہ ممکن ہے تابکاری اثرات رکھتی ہو۔ اس بات کے امکان کو بھی نظراندازنہیں کیا جانا چاہیے کہ کوئی ایسا تجربہ جو خود پاکستان نے کیا ہو وہ ہدف سے بھٹک گیا ہو اور آس پاس ہی کہیں جاگراہو ۔ اس گمان کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ٹی وی چینلوں کی ہلچل اچانک تھم گئی تھی اور اگلے دن کے شائع ہونے والے اخبارات نے جیسی ”الفی“ پی لی ہو۔ اتنی بڑی تباہی میں تابکاری کو بالکل نظرانداز کیا جانا اپنی جگہ خود ایک بڑی حیرت کی بات ہے۔

                معاملہ جو کچھ بھی ہو، خبر کے دبانے یا اس کی اشاعت روکنے سے لیکر اتنی بھاری تعدادمیں ہلاکتوں تک، ایسی بات نہیں تھی جس کو اتنا غیر معمولی سمجھ لیا جاتا کہ اس کی کسی بھی قسم کی تحقیق کرانا تک ضروری نہ سمجھا جاتا۔ اموات کا سبب خواہ موسم کی قیامت خیزی تھا یا میرے بیان کردہ خدشات، بہر لحاظ تحقیقات طلب تھا اور آج تک ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مرنے والے گاجر مولی نہ تھے البتہ کراچی والے ضرور تھے جن کو ویسے بھی کنجشک فرمایہ بھی نہیں سمجھا جاتا رہا ہے،مچھر مکھی تھے مر گئے۔ آئیل ٹینکر کے الٹ جانے پر پٹرول چرانے والے اگر آگ کی لپیٹ میں آجائیںتو ان کا حق تو تیس تیس لاکھ بن جاتا ہے، کشمیر کے زلزلے میں ہلاکتوں پر ان کو مدد فراہم کی جاسکتی ہے تو وہ اموات جو مان لیا جائے کہ خالص قدرتی آفت کے نتیجے میں ہوئیں تھیں تو کیا لوحقین کی اشک شوئی کے لئے کہیں سے بھی کوئی آواز اٹھنا نہیں بنتا تھا؟، جبکہ یہ واقعہ صرف سورج گزیدگی کا دکھائی نہیں دیتا۔ میں ہر مقتدر ادارے سے اپیل کرونگا کہ وہ ان اموات کا لازماً نوٹس لے اور معاملے کی حقانیت عوام کے سامنے لائے۔

                جب جب بھی کراچی میں گرمیاں آئیں گی، سورج شعلے اگلے گا اور گرم ہوائیں جسموں کو جھلسائیں گی تب تب وہ ماہ و سال تحت الشعور کے جھروکوں سے شعور میں جھانکیں گے اور اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کریں گے کہ آخر وہ سب کیا تھا اور اس کے پیچھے آسمان کی ستم ظرفیاں تھیں یاکسی دشمن کا ہاتھ تھا؟۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں