چین جانے کیلئے نہیں آیا

یہ بات 70 کی دھائی کی ہے، پاک چین دوستی کا نعرہ عروج پر تھا۔ یہ نعرہ فیلڈمارشل محمد ایوب خان کے زمانے میں بھی لگا تھا لیکن اس نعرے کو امریکہ کی قربت مار گئی۔ دوسری مرتبہ یہ نعرہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لگا۔ چین سے قریب ہونے کا اس دور میں میں بھی تصور ابھرا تھا جو شاید ٹھیک ہی تھا ۔ روس سے قربت کا بھی بہت شدت سے سوچا جا رہا تھا۔۔ لیکن ۔۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ چین اور روس سے قریب ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مذہبی جماعتیں تھیں جنھوں نے عوام الناس کے اذہان میں جو بات شدت سے ابھاری وہ یہ تھی کہ اگر چین یا روس پاکستان کے قریب ہو گئے تو اسلام پاکستان سے باہر ہو جائے گا اور اس کی دلیل میں یہ کہا گیاتھا کہ پاکستان میں سوشل ازم یا کمیونزم کا فلسفہ اسلام کے نظام حکمرانی پر غالب آجائے گا۔ اسی کے ساتھ ہی دونوں ملحدانہ نظام یعنی کمیونزم اور سوشل ازم کے خلاف بے تحاشہ لٹریچر میدان میں آگیا جس میں سب سے زیادہ مقبولیت جس کتاب کو ملی اس کا نام ”سرخ آندھی“ تھا اور پاکستان کی ساری طلبہ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ”ایشیا سرخ ہے“ اور ”ایشیا سبز ہے“میں تقسیم ہو کر رہ گئی تھیں۔

چین اور روس، جو ہماری سرحدوں سے قریب تھے اس تنازع کے نتیجے میں ہم سے ہزاروں میل دور ہو گئے اور امریکہ جو ہم سے بارہ ہزار میل کے فاصلے پر تھا ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک تر ہوگیا۔ ملک میں کمیونزم یا سوشلزم تو نہ آسکا لیکن اسلام بھی نافذ نہ ہوسکابلکہ ہوا یوں کہ ایک خونی جمہوریت نے ایسے دانت گاڑے کہ کشت و خون اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا جس سے شاید ہی قیامت سے قبل پاکستان کی جان جھوٹ سکے۔

مجھے حیرت یہ ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں اور خاص طور سے وہ مذہبی جماعتیں جو اس وقت چین اور روس کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتیں تھیں اور اس کو مذہب کا مسئلہ بناکر میدان عمل میں کود پڑی تھیں ، ساری کی ساری کہاں ہیں۔ اُس زمانے کا چین ہم جیسا ہی ہوا کرتا تھا ممکن ہے کہ پاکستان سے بھی کمزور ملک رہا ہو۔ اس کا صدر اس وقت بائیسکل پر سفر کیا کرتا تھا اور مشینوں کی جگہ صرف اور صرف عام انسان اپنے ہاتھوں سے ہر کام انجام دیا کرتے تھے جبکہ آج کا چین بظاہر تو دنیا کی تیسری بڑی قوت ہے لیکن ممکن ہے کہ وہ اب دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہو اس لئے کہ اس میں ایسی قوم پائی جاتی ہے جو اپنی ایجادات ہمیشہ دنیا سے چھپاکر رکھنے کی عادی رہی ہے۔ جس زمانے میں دنیا کھالوں، پتوں، چمڑوں، پتھروں اور کپڑوں میں اپنی کتابیں لکھا کرتی تھی چین میں اس دور میں بھی کاغذ ایجاد ہو چکا تھا، اس لئے کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ اس وقت کا چین کتنی بڑی طاقت بن چکا ہوگا۔

جس کمیونزم یا سوشلزم کا خوف دلا کر ( جو بالکل درست فیصلہ تھا) پاکستا نی عوام کو چین سے دور رکھا گیا، وہ کمیونزم اب بھی چینی عوام کے جسم کے لئے روح کا کردار ادا کر رہا ہے گویا اگر اس وقت جس چیز کا ڈریا جس ازم کا خوف دلایا جا رہا تھا وہ ڈر اور خوف اسی صورت میں موجود ہے بلکہ اس میں ایک خوفناکیت یہ ہے کہ وہ ازم اور اس ازم کا حامل چین اب پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔

روس سے قربت اختیار کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ماضی میں اسے بے پناہ نقصان پہنچا چکے ہیں اور اس کو ٹکڑے ٹکرے کرنے میں ہمارا بہت ہی کلیدی کردار ہے۔ جب ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں تو حسن ظن سے کام لینا ہمارے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟، اس بات کا ہمیں خود ہی اندازہ کرلینا چاہیے۔

جب چین اب بھی وہی ہے، اس کا فلسفہ بھی اسی طرح دہریت اور ملحدانہ پن پر قائم ہے اور اس کی طاقت ہمارے اندازوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے، ان سب کے باوجود کہیں سے بھی کوئی آواز اس کے خلاف اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی حتیٰ کہ مذہبی جماعتیں بھی نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں بلکہ کسی حد تک ”سی پیک“ کی حامی ہی دکھائی دیتی ہیں تو میں اپنی حیرت پر خود ہی حیران رہ جانے پر مجبور نہیں ہو جاوں تو اور کیا کروں۔

میرے پیش نظر اس وقت ”فرائیڈے اسپیشل (جسارت)“ میں شائع ہوجانے والے مضمون ”چین پاکستان اسٹریٹجک اتحاد“ ہے جو تحریر ہے جناب ”سید وجیہہ حسن“ کی جس میں انھوں نے اس اتحاد کو سراہا بھی ہے اور کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا ہے لیکن ان کے خدشات کم ہیں اور پاکستان کی خوشحالی کے پہلو زیادہ ہیں۔ میں ان کے مضمون پر کسی قسم کی کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن مجھے اس اتحاد میں جو خدشات یقین کی حد تک دکھائی دے رہے ہیں، ان کا اظہار کرکے ان سے اس سلسلے میں تائید کا خواہش مند ہوں، نہ صرف ان کی تائید کا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہر اُس قاری سے جو اِس کا مطالعہ کرے تاکہ اگر میرے خدشات درست ہیں تو اس بات کو اور بھی بہت سارے لوگوں تک عام کرے اور مستقبل میں اس قسم کے خدشات سے بنرد آزما ہونے کے لئے ذہنوں کو تیار کرے۔

میرے پیش نظر جو غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا، خصوصاً ملکوں اور ملکوں کے درمیان اس قسم کی کوئی دوستی ہوتی ہی نہیں ہے۔ مفادات ایک دوسرے کو قریب لے کر آتے ہیں اور یہ مفادات کبھی یک طرفہ نہیں ہوتے۔ ان مفادات میں مجبوریاں بھی ہوتی ہیں اور محرومیاں بھی۔ طاقت کا غرور بھی ہوتا ہے اور بڑائی کا خبط بھی۔ ۔ لیکن ۔۔ قدر مشترک یہ ہوتی ہے کہ یہ مفادات بہر لحاظ ہوتے دوطرفہ ہی ہیں۔

چند دھائیوں قبل پاکستان سے امریکہ کا اور امریکہ سے پاکستان کا مفاد اس وقت شدید دو طرفہ ہوگیا جب روس افغانستان میں داخل ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی دوسری منزل بہر صورت پاکستان ہی تھی، اگر روس پاکستان میں داخل ہوجاتا یا پاکستان اس کو ”سی پیک“ کی طرح اپنی سرزمین سے گزرکر گرم سمندروں تک رسائی دیدیتا تو روس دنیا کی اتنی بڑی طاقت بن جاتا کہ امریکہ اس کے سامنے طفل مکتب بن کر رہ جاتا۔ روس کو افغانستان سے بے دخل کرنا امریکہ کی ایک ایسی ضرورت تھی جس کو وہ ہر قیمت پر پورا کرنے کے لئے ہر طرح کا قدم اٹھا سکتا تھا خواہ اس کو بلاواسطہ ہی جنگ میں کودنا پڑجاتا۔ اس بات کی دلیل کے لئے ”ہیروشیما اور ناگاساگی“ کافی ہیں لیکن اس صورت میں ایک خوفناک عالمی جنگ چھڑجانے کا قوی امکان پیدا ہو سکتا تھا جو پوری دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتی تھی لہٰذا یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس جنگ میں کوئی ایسا ملک شامل ہو جس پر روس کوئی بیرونی مداخلت کاالزام عائد نہ کر سکے۔ اب یا تو افغانستان ایسا ملک ہو سکتا تھاتھا یا ایران یا پھر پاکستان۔

افغانستان کے عوام تو شاید امریکہ کے لئے بہت مفید ہوتے لیکن ان کے پاس ایسے افراد اس وقت بھی کم تھے اور آج بھی کم ہیں جو جذبے کے ساتھ اپنی عقل بھی استعمال کرتے ہوں۔ جنگ میں صرف شیر کی بہادری سے کام نہیں چل سکتا، لومڑی کی طرح چالاک ہونا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان میں اُس وقت بھی کوئی بہت منظم اور طاقتور فوج نہیں تھی اور آج بھی یہ کمی شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ ادھر پاکستان نظریات کے لحاظ سے اہل کتاب کے قریب تو ہوسکتا تھا لیکن کسی بھی قسم کی دہریت پسندی کے ساتھ کسی صورت نہیں چل سکتا تھا۔ روس پاکستان کی سرحدوں کو تو چھو ہی چکا تھا اور کسی وقت بھی پاکستان میں یا تو داخل ہوسکتا تھا یا پاکستان سے اپنے لئے راستہ مانگ سکتا تھا۔ ایک جانب پاکستان روس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور دوسری جانب امریکہ کے لئے روس کی طاقت توڑنا ضروری ہو گیا تھا۔ یہ تھے وہ دوطرفہ مفادات جس نے دونوں کا کام آسان کر دیا اور ”شیر اور بکری“ ایک ہی کھاٹ پر پانی پینے کے لئے خوش دلی کے ساتھ رضامند ہو گئے۔

اس جنگ میں روس ٹوٹ کر بکھر گیا اور امریکہ دنیا کی واحد طاقت بن گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مفادات تبدیل ہوگئے اور مفادات کی یہ تبدیلی پاکستان کے لئے عذاب جان بن گئی۔

پاکستان کے لئے قیامت یہ بات بھی ہو گئی کہ اس مارادھاڑی میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور افغانستان کے پختونوں کو پہنچا ، وہ پختون جو کئی صدیوں سے افغانستان پر حکمرانی کر رہے تھے ان کے ہاتھ سے عملاً افغانستان کی باگ دور نکل کر غیر پختونوں کے خلاف چلی گئی یا اس گروپ کے ہاتھوں میں آگئی جن کوپاکستان کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا اور اب بھی وہ پختون جو مختلف جارح گروپوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، چاہے وہ افغانی ہی کیوں نہ ہوں، ان کے ہاتھوں، افغان حکومت کو کوئی بھی گزند پہنچے، وہ اس کا الزام پاکستان ہی کو دیتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ افغان پاکستان کشید گی ختم ہو سکے جس کا پورا پورا فائدہ بھارت اٹھا نے کی کوشش کر رہا ہے اور کرتا بھی رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری شمال مشرقی سرحدیں بہت پر خطر ہوتی جا رہی ہیں۔

اس ساری صورت حال کو سامنے رکھ کر اس بات کا تجزیہ کرنا کہ روس سے قربت ہمارے لئے کسی طرح بھی سود مند نہیں ہو سکتی اور اس میں خطرات بہت اور فوائد کم ہیں، کہنا کوئی مشکل اور انہونی بات نہیں، اس لئے کہ دونوں ہی زخم خوردہ ہیں اور ایسے زخمی سانپ بنے ہوئے ہیںجو ڈسے بغیر کسی طور باز نہیں آسکتے۔

جس راہداری کی ہم بات کر رہے ہیں وہ اگر ہم خود تعمیر کرکے چین کو گزرنے کے لئے فراہم کرتے تو اس کی کچھ اور ہی بات ہوتی لیکن اپنے گھر کے صحن میں سے چین کو ایسا راستہ دینا جس کو وہ تعمیر بھی خود کریگا، اس کی درستگی کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا، اس پر آمد و رفت کا محافظ بھی وہ خود ہوگا، یہ ایک بہت ہی خوفناک سی بات ہے۔ پھر پاکستان یہیں پر ہی بس نہیں کئے ہوئے ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اس گھر کا کچن بھی ”امریکن“ کر دو، اس کے درو دیوار پر رنگ روغن بھی کر دو، اس گھر کا فرنیچر بھی بدل دو، اس کا ”فرنٹ ویو“ بھی بلگیٹ کے ڈرائنگ روم کی شکل کا بنا دو۔۔۔ پاکستان کی سڑکیں بنا دو، ٹرینیں چلا دو، بسیں چلادو، ماس ٹرانزٹ سسٹم برطانیہ والا بنا دو، گلیاں اور سڑکیں بھی صاف کردو، سیوریج کا نظام بھی اپنے ذمہ لے لو، توانائی اور مواصلات بھی اپنے قبضے میں لے لو تو آپ خود ہی یہ فیصلہ کریں کہ پاکستان کی شلوار کا ایک کمر بند ہی تو رہ جائے گا جو حوالے کرنا باقی ہوگا۔

کیا آپ کسی بھی ایسے ”پچھواڑے“ پڑوسی سے جو آپ کی جھونپڑی کو صرف راہداری (راستہ) لینے کے عوض محل بنا کر رکھ دے ، یہ کہنے کی جرات کرسکتے ہیں کہ اب آپ کا کام ختم، آپ تشریف لیجا سکتے ہیں۔ پھر پڑوسی بھی کون؟ جو دنیا کا سب سے بڑا باکسر یا ریسلر ہو؟ اور اس کے ساتھ طرہ یہ ہو کہ آپ ہوں ”بھکاری“ پھکڑ اور غربت کی لکیر سے بھی کہیں نیچے اور وہ ہو دولت مند، باثراور طاقت کا پہاڑ؟ آپ کے فقط ہوں کہنے پر وہ آپ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیگا۔

ایک غور طلب بات یہ ہے کہ کیا چین کو ہمارے اسلام یا اسلام پسند جماعتوں سے کوئی قربت یا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ کیا سے اس بات سے کوئی واسطہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کس لئے بنا یا گیا تھا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یقیناً یہ پاکستان، پاکستان کے عوام اور اسلام کے لئے ایک بہت ہی بڑے معجزے کی بات ہوگی لیکن کیا اس حسن ظن کے لئے ہمارے پاس کوئی مضبوط دلیل ہے؟ اور اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ یہ غور کرنا پڑے گا کہ آنے والے ان خدشات کا ہمارے پاس کوئی توڑ بھی ہونا چاہیے یا نہیں، کیونکہ میں اپنی خدشات بھری نگاہوں میں اسلام پسند جماعتوں کو زیر عتاب اور وہ جماعتیں جن کا کوئی تعلق دین سے نہیںہے، انھیں پھیلتا، پھلتا اور پھولتا دیکھ رہا ہوں اور اس کشمکش میں آنے والے مہینوں اور سالوں میں اندرونی کشیدگی میں اضافہ مجھے بہت واضح نظر آرہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ چین ان متحرب گروپوں، فراریوں اور نام نہاد پاکستانی جہادیوں سے براہ راست بات چیت کرنا نظر آرہا ہے اور ششدر کردینے والی بات یہ ہے اس براہ راست بات چیت پر نہ تو حکومتی حلقوں میں کوئی تشویش دیکھنے میں آرہی ہے اور نہ ہی پاکستان کے عسکری ادارے میں کسی قسم کا اضطراب نظر آرہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین پاکستان میں امریکی مداخلت بھی گوارا نہیں کرے گا ۔۔ لیکن ۔۔ اپنے مفادات کی حد تک، وہ بھارت کو سازشوں سے بھی باز رکھے گا ۔۔مگر ۔۔ اپنے مفادت کو سامنے رکھ کر ۔ اور ۔ یہ بھی ذہن میں رکھیئے کہ ایک مادہ پرستانہ فلسفے کی حامل قوم کو ہمارے حقیقت پر مبنی نظریہ کائینات یعنی اسلام سے کسی بھی قسم کی کوئی دلچسپی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین ہونی چاہیے کہ وہ یا کوئی بھی ملک ہماری جنگ کبھی نہیں لڑے گا بہت ہوا تو وہ ہمیں ہتھیار ضرور فروخت کریگا اور ہتھیار کبھی مفت نہیں ملا کرتے اور نہ ہی بطور قرض یا امداد دیئے جاتے ہیں۔

ایک اور خطرناک بات جو اس زیر نظر مضمون میں ہے وہ یہ ہے کہ چین نے ہمارے سمندری تحفظ کے لئے دو بحری جنگی جہاز بھی دیئے ہیں جن کو موصوف پاکستان کی بحری قوت میں زبردست اضافہ تصور کر رہے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔۔لیکن ۔۔میرے نزدیک ان جہازوں کی شمولیت خوش کن بالکل بھی نہیں اس لئے کہ یہ جہاز سو فیصد پاکستان نیوی کے حوالے نہیں ہونگے بلکہ یہ اس مال کی آمد و رفت کی حفاظت کے لئے ہونگے جس کا تعلق چین کی لین دین سے ہوگا۔ اس خبر سے اس ”خبر بد“ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ گوادر میں چین کی ایک لاکھ فوج قیام کریگی اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو پچاس سال کے لئے چین کے حوالے کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ بات یہیں ختم ہوتی نظر نہیں آرہی اس لئے کہ جب آپ کسی کو اپنی انگلی پکڑ واتے ہیں تو وہ پہلے پہنچا اور پھر کلائی پکڑنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں دو اہم باتوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ گوادر میں پانچ لاکھ چینیوں کو آباد کرنے کیلئے نہ منظوری مل چکی ہے بلکہ ان کی رہائش کیلئے باقائدہ پوری بستی بنائی جارہی ہے، ان کی کرنسی پاکستان میں پاکستانی روپوں کی مانند گردش کرنے کی اجازت بھی مل چکی ہے اور ہماری سینٹ نے ایک بل منظور کیا ہے جس کی رو سے چینی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اگر موصوف کی یہ اطلاع کہ بحری بیڑے میں چین کے دو جہاز شامل کر دیئے گئے ہیں درست ہے، بلکہ واقعی درست ہی ہے، تو باقی خبریں بھی اتنی غلط نہیں ہونگی اور آنے والا وقت خود بخود ان خبروں کو سچ ثابت کرتا چلا جائے گا جس کو پاکستان کے بد خواہ اور نااہل حکمران قوم سے پوشیدہ رکھنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک اور تردد نہیں کہ بلاشبہ اس اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کریگا، خوش حالی کا دور ہوگا، پاکستان کے عوام بہت ہی اچھے دن دیکھیں گے اور غربت و توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا لیکن ایک ایسا غلامی کا دور شروع ہوگا جس کو ختم کرنے کے لئے نہ جانے کتنی صدیاں درکار ہونگی۔ یہ دور بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے امریکہ، کنیڈا اور یورپ میں رہنے والے ہمارے پاکستانی بھائی عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ جیل جیل ہی ہوتی ہے خواہ سونے چاندی کی سلاخوں سی بنائی جائے اور خواہ سونے کے چمچوں میں دنیا بھر کے کھانے پینے کی اشیا مہیا ہوں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں