بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

                ایوب خان کی بڑی خواہش تھی کہ ہمارے خارجی تعلقات چین سے استوار ہونے چاہیں۔ یہ اس زمانے کی بات تھی جب چین ہمارے جیسا ہی ہوتا تھا بلکہ بعض معاملات میں ہمیں اس پر برتری حاصل تھی اور شاید ہی کسی کے تصور میں یہ بات آسکتی ہوگی کہ مستقبل کا چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن کر ابھرے گا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی دوسرے ممالک میں اپنے ہاتھ پاوں دراز کرنے کی کوشش کرنا شروع کر دیگا۔

                پاک چین دوستی کے نعرے بھی لگے، ترانے بھی بجے اور قربتیں بھی پیدا ہوئیں لیکن اس دوستی اور قربت کو ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں نے آگے نہیں بڑھنے دیا اور اس کی مخالفت کا جو جواز عوام میں پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور کمیونزم کی بنیاد لا دینیت یا دہریت پر ہے۔ اس سے دوستی کے نتیجے میں ملک میں بھی کمیونزم آجائے گا اور لوگ دین سے بے بہرہ ہو جائیں گے۔

                روس سے بھی خارجہ پالیسی استوار کرنے میں یہی بات مانع رہی کہ وہاں کا اشتراکی نظام جس کو سوشلزم کہا جاتا ہے وہ کیونکہ ہمارے اسلام سے ذرہ برابر بھی مطابقت نہیں رکھتا اس لئے اس سے دوستی بڑھانے کا مطلب اسلام کو خطرے میں ڈال دینا ہے۔

                ایوبی دور بیت گیا، ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو اس نے بھی پاک چین دوستی کا بیڑا اٹھایا، قربتیں اتنی بڑھیں کہ ہم نے(پاکستانیوں نے) انگریزوں کے تراشیدہ ٹو پیس اور تھری پیس سوٹ بھول بھال کر چائنا کے تراشیدہ کوٹ پتلون کو اپنے تن کی زیب و زینت بنا لیا، باالفاظ دیگر ایک غلامی سے دوسری غلامی کو قبول کر لیا اور اپنا کچھ بھی دوسروں میں منتقل نہیں کر سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین اور روس سے قربتیں اس حد تک بڑھانے کی کوشش کی گئی کہ ”سوشلزم“ کو بھی ”اسلامی سوشلزم“ کا نام دینے کی بھر پور کوشش کی، یہ ہوا پاکستان میں چلی ضرور لیکن اس سے قبل کہ یہ بادِ صر صر میں تبدیل ہوتی ہم پھر امریکہ کی گود میں جا بیٹھے بلکہ رہبرانِ قوم نے قوم کو اس حد تک قائل کر لیا کہ روس اور چین تو ”دہریے“ ہیں جبکہ امریکہ والے عیسائی اور عیسائی اہل کتاب ہوتے ہیں اور اہل کتاب سے دوستی کی جاسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

                جس وقت چین ایک غریب ملک تھا اور وہاں کے حکمران اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری عہدے داران یا تو پیدل سفر کیا کرتے تھے یا سائیکلوں میں دفتر آیا جایا کرتے تھے تب ہماری مذہبی اور اکثر سیاسی جماعتوں کو ان سے اتنے بے پناہ خدشات لاحق تھے ۔ وہ کسی طور بھی اس بات پر آمادہ نہیں تھے کہ چین کو دوست بنایا جائے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اب جبکہ ہم(پاکستان) پہلے سے بہت کمزور اور زبوں حالی کا شکار ہیں، اندرونی دوست اور دشمن میں تمیز کرنا مشکل ہو چکا ہے، دشمن بڑھ گئے ہیں اور دوست نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، مذہبی اعتبار سے بھی کافی کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں، سیاسی خلیجیں بھی بہت وسیع ہو چکی ہیں اور پاکستان کا ایک ایک شہری قرضوں میں سرتاپا غرقاب ہے ہم چین سے دوستی کرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ و خدشہ محسوس نہیں کر رہے جبکہ اب یہ چین وہ چین نہیں ہے جو کبھی ہم جیسا ہی ہوا کرتا تھا۔

                روس سے دوستی میں بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں جبکہ یہ وہی روس ہے جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں ہمارا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنا ماضی بھلا کر ہماری ساری خطائیں معاف کر بیٹھا ہوگا اور جب ہم اس کو گلے لگالیں گے یا وہ ہمارے سینے سے آلگے گا تو وہ سارے زہر کو اپنے بدن سے نکال کرہم سے شیر و شکر ہو جائے گا۔

                امریکہ سے یہ دوستی اس حد تک بڑھ گئی کہ یہ تمیز بھی ختم ہو کر رہ گئی کہ آیا ہم (یعنی پاکستانی) عیسائی ہیں یا امریکی مسلمان؟ ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہی نہیں بلکہ اس کو ”اسلامی“ بھی بنا دیا ۔ایک ایسا نظام جس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا، اس کو اس حد تک اسلام سے قریب کردیا کہ آج اگر اس سلسلے میں کسی پبلک مقام پر بحث چھیڑ دی جائے تو یہ تمیز مشکل ہوجائے گی کہ ”جمہوریت“ اسلام ہے یا سلام کا دوسرا نام جمہوریت ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ آٹھ دس کی آنکھ بھی پھوٹ جائے اور سر بھی کھل جائیں۔

                یہ امریکہ اس وقت اور بھی حسین اور خوبصورت لگا جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں کے حکمرانوں کو اس حد تک مغلوب کرلیا کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اسلام کے خلاف اگر کوئی بات ہو جائے تو یہ بات بدکار سے بدکار مسلمان کو گوارہ نہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کے متعلق تو میری معلومات محدود ہیں لیکن جس خطے میں افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ ڈیش آتا ہے اس خطے کے مسلمانوں سے جب جب بھی کوئی اپنا مقصد نکالنا ہو یہاں کے ”اسلام“ کو خطرے میں ڈال دو اور پھر دیکھو کہ کس طرح ہر دکھ درد بھلا کر لبیک لبیک کہتے آپ کے گرد جمع ہوجائیں گے۔

                چشم فلک نے 1857 کو بھی دیکھا، تحریک خلافت کو بھی دیکھا، پاکستان کی تحریک بھی دیکھی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی دیکھی، 1965 کی جنگ بھی نہیں بھلائی جاسکتی، ایوب خان کے خلاف تحریک بھی یاد ہوگی، بھٹو کو ہٹانا بھی یاد ہوگا اور متحدہ مجلس عمل کو بھی کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

                یہ قوم کیسے گوارہ کرتی کہ ان کے اسلامی ملک افغانستان پر کوئی ایسا ملک قبضہ کرلے جس کا کوئی دین دھرم ہی نہ ہو اور حد یہ کہ وہ اللہ کے ہی قائل نہ ہوں۔ جہاد کے نام پر اس قوم سے جو چاہو وہ کر وایا جاسکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا، ثور پھونک دیا گیا، مردہ ضمیر تک زندہ ہو گئے اور ایک دو نہیں کروڑوں کی تعداد میں ہر فردوبشرہرقربانی دینے کے لئے تیار ہو گیا۔ ایسے میں امریکہ کی حمایت و امداد کو تو نعوذباللہ تائید خداوندی اور فرشتوں کا جوق درجوق اترنا سمجھا گیا۔ اب خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اس گھڑی امریکہ کا چہرہ کتنا نور بھرا لگا ہوگا۔ وہ نعرہ کہ عیسائی اہل کتاب ہوتے ہیں اور ان سے دوستی کی جا سکتی ہے، جسم کے روئیں روئیں میں سرائیت نہیں کر گیا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اس وقت کسی کو بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی کہ امریکہ کی اس تائید اور حمایت میں کتنے مکروہ عزائم پوشیدہ ہیں جس طرح آج یہ بات نہیں سمجھ میں آرہی کہ چین مستقبل میں ہمارے لئے کتنا بھیانک ثابت ہوسکتا ہے۔

                کل تک ہو یہ رہا تھا کہ ہر قسم کا خود کش حملہ ”فدائی“ کہلایا جاتا تھا۔ ہر حملے کے بعد اکثر دینی ، سیاسی اور حکمران جماعت سے جب یہ کہا جاتا تھا کہ آپ کم از کم ان حملوں کی مذمت ہی کردیں تو کوئی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ افواج پاکستان جانتی تھیں کہ ایسے عناصر کو طاقت کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے اس لئے وہ ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے کے حق میں تھیں۔۔ لیکن۔۔ کچھ مذہبی اورسیاسی جماعتیں اور خاص طور سے حکمران جماعت کسی بھی قسم کی عسکری کاروائی کی اجازت دینے کے لئے تیار ہی نہیں تھی۔ حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ ”آرمی پبلک اسکول“ کا درد ناک اور بھیانک ترین واقعہ ہوا اور پھر وہ طوفان مچا کہ الاماں الحفیظ، پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین اقدامات اٹھائے گئے اور کل تک جو جماعتیں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی نظر آتی تھیں وہ ساری کی ساری اس کامیابی کا سہرا اپنے اپنے سر باندھتی نہیں تھک تیں۔

                اب جبکہ تشدد کی نئی لہر پھر سے جنم لے رہی ہے، منظور پشتین کی صورت میں جو نئی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ سر ابھار رہا ہے اور اس کی آڑ میں تباہ برباد کئے جانے والے باغی جہادیوں کو اپنے عزائم پورے کرنے کا خطرہ جڑ پکڑتا جارہا ہے، وہی ساری سیاسی جماعتیں، گروہ اور حکومت میں شامل افراد اور جماعتیں پھر سے تذبذب کا شکار نظر آرہی ہیں اس لئے کہ وہ اچھی طرح اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ اگر وہ عسکری اقدامات کی مخالف رائے کا اظہار کریں گے تو غدار بھی کہلائے جاسکتے ہیں اور اگر انھوں نے ”فدائین“ کی حمایت ترک کردی تو ایک تو آنے والا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ نہایت تیز دھاروالے ”چھرے“ ان کی رگ گلو نہ کاٹ کر رکھ دیں۔

                میں اپنے بچپن سے بڑھاپے تک آسمان کے بدلتے رنگ اور قوم کے پل پل بدلتے نظریات دیکھ دیکھ کر تھک چکا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ہم کب اس قابل ہونگے کہ دنیا ہمیں دیکھ کر اپنا رنگ بدلا کرے گی اور ہم فخر کے ساتھ چین ، روس،بھارت اور ایران کے اندر اپنی راہ داریاں بنا کر ان کی ترقی کا سبب بن رہے ہونگے۔ ۔ مگر ۔۔ ایسا بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی کے بنے یا نہ بنے پہلے اپنے بن جائیں، جس وقت بھی ہم ”اپنا“ بننے میں کامیاب ہو گئے، دنیا ہماری بن جائے گی۔

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں