غداروں کا بنایا ہوا ملک

جب پاکستان بنا تھا تو اس کے دو بازو ہوا کرتے تھے اور دونوں بازؤں کی کل آبادی کوئی 10 کروڑ کے قریب تھی۔ یہ ملک جس کو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے یہ دولخت ہونے سے پہلے اور کچھ بعد تک پاکستان کہلاتا تھا اس کو بر صغیر انڈ و پاک کے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ اس زمانے میں بھی 20 لاکھ انسانی جانیں اس کی بنیادوں میں پڑیں۔ آبادی کے اُس دور سے اور اب کے دور سے اگر موازنہ کیا جائے تو یہ انسانی قر بانیاں ایک کروڑ سے بھی زائد ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کو “غداروں” نے بنایا اور یہ وہی غدار ہیں جن کا خون پسینہ، عزت و آبرو اور مال و دولت اس ملک کو بنانے پر قربان ہوئی۔

 غداروں کی ایک بھاری اکثریت کا تعلق پاکستان کے مشرقی بازو سے تھا۔ وہ غدار کیوں ہوئے یا غدار کیوں کہلائے؟، یہ سوال ان کی غداری کے نتیجے میں علیحدگی کے بعد سے آج تک ایک معمہ بناہوا ہے لیکن یہ بات طے ہے جو پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا پاکستان تھا وہ “غدارپاکستان” نکلا۔ یعنی معماران وطن تھے ہی غداران وطن اور لہو بھی انھیں غداروں نے پیش کیا۔

1971 میں “پاکستانی” قوم کو غداران وطن سے نجات ملی اور اس طرح پر سکون نیندوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگر آج کی آبادی کی نسبت سے اس وقت کی آبادی کا تناسب نکالا جائے تو ملک کی تعمیر کرنے والے اور پاکستان کی جان کھانے والے کوئی 25 کروڑ انسان تھے جس کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان کی باقی آبادی اب مسلمان یا “پاکستانی” بن کر رہے گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ کچھ ہی عرصے بعد ہی اندازہ ہونے لگا کہ “کل”پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد غداروں کی آبادی کو کاٹ دینے کے باوجود باقی ماندہ 45 فیصد آبادی میں بھی غداروں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جس سے اگر نہیں نمٹا گیا تو یہ باقی بچ جانے والا پاکستان بھی تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گا۔ چنانچہ اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ غداری کے سارے سوراخوں کو جس طرح ممکن ہو بند کیا جائے۔

باقی ماندہ پاکستان میں “جئے سندھ” کا مطلب “مرے پاکستان” سے لیا گیا۔ چنانچہ ہر وہ فرد جو سندھی بولتا تھا وہ جئے سندھ یعنی مرے پاکستان میں شمار کیا جانے لگا یا باالفاظ دیگر “را” کا ایجنٹ نہیں تو چمچہ۔ اب جبکہ سندھی بومنے والے ایک کثیر تعداد رکھتے تھے اس لئے ضروری تھا کی پہلے ان پر سے اعتماد ختم کیا جائے کیونکہ کسی کا مشکوک ہوجانا پاکستان کیلئے کسی بھی بڑے نقصان کا سبب ہو سکتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ نگہ داران پاکستان کو ان کی نگرانی پر معمور کیا جائے۔ جئے سندھ کی لیڈر شپ کو یا تو خرید لیا جائے یا پھر راستے سے ہی ہٹا دیا جائے تاکہ یہ پاکستان میں کھائیں پئیں تو ضرور لیکن حکومتی امور میں اتنے مضبوط کبھی نہ ہو سکیں کہ وہ نگہ داران پاکستان کیلئے درد سر بن جائیں۔

ملک کی آبادی کا غدار در غدار ہونے کے سلسلہ کو جتنا روکنے کی کوشش کی گئی، غداروں کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ بلوچی بھی “مشکوک” ہو گئے جس کی وجہ سے نگہ داران پاکستان وہاں بھی نگرانی پر مجبور ہو گئے۔

وہ سارے لوگ جو موجودہ پاکستان کی سرحدوں کے اُس پار سے آئے تھے وہ تو روز اول سے ہی ہی مشکوک قرار دیدئے گئے تھے جس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ وہ ہستی جس نے پاکستان “پاکستانیوں” کے حوالے کیا تھا اس کی بہن جو آخری سانس تک قائد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی رہین تھیں یعنی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ بھارتی ایجنٹ قرار دی گئیں اور اس ٹھونسے ہوئے جرم کی بنا پر ان کی تحریر (کتاب) اور تقریر (قوم سے خطاب) پر تا قیامت پابندی عائد کردی گئی۔ اب کیونکہ انھیں اہل کراچی کی (مہاجرین کی) حمایت حاصل تھی اور اسی سبب تمام اہل کراچی (مہاجر) معتوب و مشکوک کی فہرست میں شامل کر دیئے گئے اس طرح وہ غدار جو ہندوؤں کی نگاہوں میں تو تھے ہی غدار وہ خود پاکستانیوں کی نظروں میں بھی غدار ہی قرار دیدیئے گئے۔ یوں غداروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے “نگہ بانوں” کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا،

دوسری بات یہ ہوئی کہ وہ خاندان تو تقسیم ہند کے بعد خود بھی تقسیم ہو کر رہ گئے تھے ان کو ایک دوسرے سے میل جول برقرار رکھنے کیلئے “کھوکھراپار” والے راستے آنے جانے میں بہت آسانی تھی لیکن کیونکہ پاکستانیوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ وہ سارے لوگ جو موجودہ پاکستان کی سرحدوں کے اس پار سے آئے ہیں وہ سارے کے سارے پاکستان کی “مٹی” سے تعلق رکھنے والوں کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں اس لئے ان کا کھوکھراپار کے راستے آنا جانا درست نہیں اور اہل پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ “گھنٹا” ہیں اس لئے اس آۤنے جانے والے سلسلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا۔ ویسے نیک اور پارسا لوگوں کی سر زمین کے تمام راستے پنجاب، کشمیر، شمالی علاقہ جات اور اس وقت کے “سرحد” کے اس طرح گھول دیئے گئے جیسے یہ آب کوثر پیئے ہوئے اور زمزم نہائے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تو مستقل سرحدوں کا تصور تو ضرور موجود ہے لیکن آزاد کشمیر، فاٹا اور “سرحد” کی کوئی بھی حد مستقل نہیں۔ آنے جانے والوں کیلئے بھی دروازے ایسے کھلے چھوڑ دیئے گئے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے ملک کے شہروں کے دیوار و در ہیں۔

وہ پٹھان جو کبھی پاکستان کی شان ہوا کرتے تھے اب بالائے جان کہلاتے ہیں۔ دن رات آہن و فولاد کی بارش ہوتی ہے کیونکہ 70 برس بعد وہ مشکوک ہی نہیں ہوئے بلکہ کھلم کھلا غداروں کی فہرست میں شال کر لیا گیا۔

غداروں کی فہرست میں ہر آنے والاے دن کے ساتھ اضافہ در اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ کے بعد بلوچستان اور بلو چستان کے بعد کے صوبہ سرحد (کے پی کے) بھی غداروں کی فہرست میں آچکا ہے۔

لوگ سمجھ رہے ہونگے کہ پنجاب میں کوئی بھی غدار پاکستان نہیں تو ان کا ایسا سوچنا سخت جہالت کی بات ہے۔یہاں کا معاملہ تو یہ ہے کہ دو وزیراعظم تو کان پکڑ کر وزارت عظمیٰ سے ہی نکال دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشمار تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا یے۔ کچھ کو گلے لگانے کے بہانے گلے سے پکڑلیا گیا ہے اور کچھ دشمنی اور پیار کے درمیان چوں چوں کا مربہ بنے ہوے  ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ نگہ دارانِ پاکستان ان کو صرف گھور گھور کر دیکھنے پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں براہ راست نگراں بننے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں ہر تیسرہ چوتھا اپنا رشتہ دار ہی نظر ۤتا ہو۔

اب اپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ باقی ماندہ پاکستان کی بھی 55 فیصد سے زیادہ آبادی غداروں پر ہی مشتمل ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر مشرقی پاکستان کے غداروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو 1947 میں جو پاکستان تھا اس کی 70 فیصد سے بھی زیادہ آبادی غداروں پر مشتمل تھی جبکہ موجودہ پاکستان کی آبادی میں بھی واضح اکثریت ملک دشمنوں ہی کی ہے۔

کھوکھراپار کی سرحدیں جس خوف سے بند کی گئیں تھیں، تقسیم ہند کے نتیجے میں تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کا جس طرح خون کر دیا گیا تھا اور ان کو جس انداز میں مشکوک قرار دیدیا گیا تھا وہ یہ بتائیں کہ جن کو نہایت قابل بھروسہ تصور کرکے شمالی اور مغربی سرحدوں کو گھر کے دروازوں طرح کھول کر رکھا گیاتھا، نگہ داران پاکستان کو مسائل ان سے ہیں یا جن کو روز اول سے مشکوک جان کر ان کے سرحد کے اس طرف آنے اور جانے پر پابندی لگائی کئی تھی ان کے ساتھ ہیں۔

مگر یہ بات اگر پوچھی بھی جائے تو کن سے؟، پوچھنے والے کا پوچھنے کے بعد کیا حال ہوگا؟، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اگر کسی کو ملتا بھی ہے تو وہ” س و ا” نکال کر ہی ملتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں